Maktaba Wahhabi

563 - 704
کی یہی رائے ہے، اور قوی دلیل سے اسی رائے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھنڈے کو زید نے سنبھالا اور وہ کام آگئے، پھر اسے جعفر نے سنبھالا اور وہ بھی کام آگئے، پھر اسے ابن رواحہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پھر جھنڈے کو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے سنبھالا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رومیوں پر غلبہ نصیب کیا۔ [1] اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکۂ خالد کو رومیوں پر مسلمانوں کے غلبہ سے تعبیر کیا ہے، اور دوسری دلیل خالد رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ غزوئہ مؤتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ [2] یہ قول دلیل صریح ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے اس دن رومیوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا بلکہ رومی قتل کیے جا رہے تھے، اور بھاگتے ہوئے ان کے پیچھے سے مسلمان انہیں قتل کر رہے تھے۔ اور تیسری دلیل یہ ہے کہ مسلمان اس معرکہ میں بہت سے اموالِ غنیمت پر قابض ہوئے اور کوئی فوج دشمن کے مال پر اسی وقت قابض ہو سکتی ہے جب وہ غالب ہو۔ [3] معرکہ کے مثبت نتائج: اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معرکہ میں اسلامی فوج نے رومیوں اور یہودونصاریٰ کے دلوں میں رعب ودہشت اور خوف پیدا کر دیا اس لیے کہ اسلام کے صرف تین ہزار شیر ایک ایسی فوج کے سامنے ڈٹے رہے جن کی تعداد دو لاکھ رومی اور عرب مشرکین پر مشتمل تھی اور مسلمان کسی بڑے جانی خسارہ کے بغیر مدینہ منورہ بحیثیت فاتح واپس آئے۔ مؤرخینِ سیرت نے لکھا ہے کہ اُس معرکہ میں مسلمان شہداء کی تعداد صرف بارہ تھی جبکہ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ رومی مقتولین کی تعداد بہت بڑی تھی۔ صرف خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں، اور اس بہادرانہ مقابلہ کا اثر یہ ہوا کہ رومی مسلمانوں کے قتال سے بھاگنے لگے۔ حالانکہ اس وقت روئے زمین پر ان کی فوجی طاقت سب سے بڑی تھی۔ اس جنگ کے بعد رومیوں کو یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کو ان کے رب کی غیبی تائید حاصل ہے، اور یہ کہ ان کے قائد محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے برحق رسول اور نبی ہیں، اور اب دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسلامی فوج کی پیش رفت کو روک سکے۔ یہ بات صرف رومیوں کے ساتھ خاص نہیں رہی بلکہ وہ کافر قبائلِ عرب جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، اور مدینہ جاکر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے عربوں کی بھیڑ جمع کر رہے تھے اُن کی طاقت نے بھی جواب دے دیا، اُن کے اعصاب مضمحل ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ اگر وہ اسلام میں داخل نہ ہوئے تو عنقریب پکڑ لیے جائیں گے اور قتل کر دیئے جائیں گے، اس لیے انہوں نے اپنے اسلام کے اعلان میں تیزی دکھائی۔ وہ مشہور قبائل قبائلِ بنو سلیم، اشجع، غطفان، ذُبیان وغیرہم تھے جو اسلامی فوج کے ساتھ ہمیشہ جھڑپوں میں مشغول رہتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ اس عظیم تاریخی معرکہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام شام اور عراق سے متصل نجدی قبائل میں تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، اور ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔
Flag Counter