بعثت اور ابتدائے وحی
مشہور ماہرِ فلکیات محمود پاشا مصری کی تحقیق کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چالیس سال،چالیس دن کے ہوئے(اور ایک قول کے مطابق بیس دن کے ، اور ایک تیسرے قول کے مطابق دس دن کے ) تو سن 13/ قبل ہجرت، 17/رمضان، سوموار کی رات کو جبریل علیہ السلام ربّ العالمین کی طرف سے وحی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غارِ حرا میں حالتِ بیداری میں آئے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : پڑھئے، تو آپ نے فرمایا:مجھے پڑھنا نہیں آتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر جبریل علیہ السلام نے مجھے پکڑ لیا ،اور زور سے بھینچا، پھر چھوڑ دیا، اور کہا: پڑھئے۔ میں نے کہا: مجھے پڑھنا نہیں آتا۔ جبریل علیہ السلام نے مجھے تیسری بار پکڑلیا،اور زور سے بھینچا، پھر چھوڑ دیا، اور کہا:
((اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿1﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿2﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿3﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿4﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ)) [العلق:1-5]
’’اے پیغمبر! آپ پڑھئے ،اپنے رب کے نام سے جس نے (ہرچیز کو) پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیاہے، پڑھئے، اور آپ کا رب بے پایاں کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، اس نے آدمی کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے فوراً واپس آگئے ، اُس وقت آپ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھادو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے آپ کو کمبل اوڑھادیا، اور کچھ دیر کے بعد آپ کا خوف جاتا رہا۔آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہ کو پوری بات بتائی، اور کہا: میں اپنے بارے میں ڈر گیا ہوں ، خدیجہ نے کہا: ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، مجبوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کے لیے کسبِ معاش کرتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں، اور حق کے کاموں میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔
ورقہ بن نوفل نے کہا: اِن کے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے:
سیّدہ خدیجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو زمانۂ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے، انہیں عربی لکھنا آتا تھا، اس لیے انجیل کو عربی میں حسبِ ضرورت لکھ لیا کرتے تھے،وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے میرے بھائی! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ دیکھا تھا اسے بیان کیا۔ ورقہ نے کہا: یہ تو وہی ناموس (جبریل) ہیں ، جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔کاش !میں طاقتور جوان ہوتا، کاش! میں اس وقت زندہ رہتا، جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیرت کے ساتھ پوچھا: کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں ! جب بھی کوئی شخص اُس چیز کو لے کر آیا جسے لے کر تم
|