Maktaba Wahhabi

153 - 704
کا کوئی کام نہیں کیا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ [1] اور مسعر نے اپنی سند کے ذریعے سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے جاہلیت میں کوئی حرام کام کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں ۔ اور میں دو بار ایسی جگہ گیا، لیکن ایک بار میرے اور اس کام کے درمیان میری قوم کا قصہ گو حائل ہوگیا، اور دوسری بار مجھے نیند آگئی۔ [2] ’’الصادق الأمین ‘‘کا لقب : آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی عمر سے ہی اپنی قوم میں ’’الأمین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، امانت اور وفاداری کے سبب لوگ آپ کو محمد الأمین کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے، آپ حق بات کے سوا کبھی کچھ نہیں کہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے اور آپ کے دشمن،تمام نے اس کا اعتراف کیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ترین دشمن بنی عبدالدار کا نضر بن حارث، شیطانِ قریش تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ ایذاء پہنچایا کرتاتھا، اور جو میدانِ بدر میں قتل کردیاگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کا مشہور قول ہے: ’’محمد تمہارے درمیان ایک کم سن نوجوان تھا ، تم لوگ سب سے زیادہ ان سے خوش رہتے تھے، وہ تم میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا، اور تم میں سب سے زیادہ امانت کی حفاظت کرنے والا تھا۔ اور اب جب کہ اس کی دونوں کنپٹیوں میں بال سفید ہونے لگے ہیں اور تمہارے سامنے اس نے اپنا دعوئ نبوت پیش کیا ہے ،تو تم اسے جادوگر کہتے ہو۔ نہیں اللہ کی قسم! وہ جادوگر نہیں ہے۔‘‘ یہ بات اس نے اس وقت کہی تھی، جب اہلِ قریش آپ کے بارے میں اپنی صواب دید کے مطابق ایک مناسب بات پر متفق ہونا چاہتے تھے تاکہ موسم حج میں قبائلِ عرب سے آپ کے بارے میں وہ بات کہہ سکیں۔ [3] اور جب شاہِ روم ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا: کیا تم لوگ اس کے دعوئ نبوت سے پہلے اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ تو ہرقل نے کہا: ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولنا گوارہ نہ کرے ،اور اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے۔ [4] قاضی عیاض رحمہ اللہ کی کتاب ’’الشفائ‘‘ میں مذکور ہے کہ ایک دن ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے ہیں ، بلکہ اس بات کو جھٹلاتے ہیں جسے لے کر تم آئے ہو۔[5]
Flag Counter