مدینہ چلے گئے۔ [1]
نجاشی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور حالتِ اسلام میں وفات پانا:
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند کلمات اس کریم النفس مسلمان ، انصاف پسند اور عالمِ دین بادشاہ نجاشی کے بارے میں لکھتا چلوں، جس نے مسلمان مہاجرین کواپنے ملک میں پناہ دی ، ان کو عزت بخشی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی نعمت سے نوازا، اور اسی پر اس کی وفات ہوئی۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کے ہجرتِ حبشہ سے متعلق قوی سند سے روایت کرتے ہیں کہ نجاشی نے جب مسلمانوںکی بات سُنی تو فوراً کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور ہم ان کا ذکر جمیل انجیل میں پاتے ہیں، اور یہی وہ رسول ہیں جن کی بشارت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے دی تھی، مسلمانو! تم جہاں چاہو اس ملک میں رہو، اللہ کی قسم! اگر مجھ پر بادشاہی کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں ان کے پاس آکر ان کی جوتیاں ڈھوتا۔ [2]
ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں روایت کی ہے کہ نجاشی نے مسلمانوں کی بات سننے کے بعد کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام نے انہی کی بشارت دی ہے ، اور اگر میرے اوپر بادشاہی کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں ان کے پاس چلتا اور ان کی جوتیوں کو چومتا۔ [3]
اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب نجاشی کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج ایک مردِ صالح کا انتقال ہوگیا ہے ، تم لوگ اٹھو! اور اپنے بھائی اصحمہ پر نمازِ جنازہ پڑھو۔‘‘ [4]
صحیحین میں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی، جس دن ان کا انتقال ہوا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکل کر نماز پڑھنے کی جگہ گئے او رصف بناکر چار تکبیروں کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کی۔ [5]
ابن اسحاق نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے کہ جب نجاشی نے وفات پائی تو لوگوں کے درمیان یہ بات ہوتی تھی کہ ان کی قبر پر ہمیشہ روشنی دیکھی جاتی ہے۔[6]
****
|