ہے کہ وہ آدمی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور دوسروں کی طرف سے کسی عزت واحترام کا حقدار نہیں ہوتا۔ یہ بات تو ایک عام عقل مند آدمی کے بارے میںبھی نہیں کہی جائے گی، تو ایسا معیوب اور بیمار رجحان خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پائے جانے کو کیسے مانا جاسکتا ہے جنہیں دنیا کے بڑے بڑے عقلمندوں نے سب سے زیادہ عقل مند، دور اندیش اور سنجیدہ مانا ہے ، جیسا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے ذکر میں گزرچکا۔
اس لیے اس بیمار فکر کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ اور بہتان ہے، چاہے اس کا سبب جو بھی ہو، اور اس جھوٹ کو مذکورہ بالا حدیث میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے بلاغ کے طور پر داخل کرنے والا جو بھی ہو۔ جو علماء فن حدیث، نقدِ متن کے اصولوں سے واقف ہیں انہیں اس بات کو سمجھنے میں ہرگز دیر نہیں لگے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خود کُشی کے رجحان کی نسبت سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ نہیں ہوسکتا۔
میں نے اس کتاب کی تیاری کے دوران اپنے شیخ علامہ محدث البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’صحیح السیرۃ النبویہ‘‘ میں یہ پڑھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس جھوٹ کی نسبت صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ یہ امام زہری رحمہ اللہ کی طرف منسوب بلاغات میں سے ہے، اور یہ سند کے اعتبار سے امام زہری رحمہ اللہ تک متصل بھی نہیں ہے، اسی لیے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصحیح میں اسے ذکر نہیں کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ روایت کا یہ حصہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں ہے، بلکہ کسی نے اسے اس روایت میں داخل کردیا ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ طبری کی یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتانِ عظیم ہے، اور ان مؤلفین نے بہت بڑی غلطی کی ہے، جنہوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے۔ [1]
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا، اور میرا مقصد اپنے نفس کا تزکیہ نہیں، کہ میں عہد نبوی سے بعید ترین اس عہد میںنبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معمولی پیروکار ہوں ۔ اگر -اللہ نہ کرے لاکھ بار- میں کسی ایسی مشکل آزمائش میں پڑجاؤں جو عقلوں کو حیران کر دے تو اللہ کے فضل وکرم سے ہرگز اس قسم کے معیوب اور بیمار رجحان کو اپنے دل ودماغ کی طرف راہ نہیں دوں گا، بلکہ رات دن اللہ کے حضور گریہ وزاری کروں گا کہ اللہ اس مشکل کو ٹال دے، مجھ پر رحم کردے، اور میری طاقت سے زیادہ مجھ پر بوجھ نہ ڈال۔ تو پھر اس بیمار فکر کی نسبت کو ایک لمحہ کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیسے قبول کرسکتا ہوں؟ جن پر ہم سب ایمان لائے ہیں، اور جن سے ہم نے اپنے آباء واجداد ،اپنی اولاد اور اپنی جانوں سے زیادہ محبت کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقامِ عظیم کی وجہ سے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء ورسل کے درمیان عطا کیا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عقلِ عظیم کے سبب جوابتدائے آفرینش سے دنیا میںاُن کے سوا کسی کو نہیں ملی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بردباری، دور اندیشی اوراپنے رب پر ایمانِ قوی کی وجہ سے جو آپ کو بعثت سے پہلے سے حاصل تھا۔
ابتدائے دعوتِ اسلامیہ:
1- اللہ تعالیٰ نے سورۃ العلق کی ابتدائی آیتوں میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ پر جو قرآن ابھی نازل ہوا ، اور آئندہ نازل ہوگا، اسے آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر پڑھیں، اور اگرچہ آپ اُمّی ہیں، آپ کا ربّ ِکریم آپ کو
|