پڑھنا سکھا دے گا، جس نے ابن آدم کو قلم کے ذریعہ لکھنے کا علم دیا جو اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بھیجتے تو یہ دین وجود میں نہ آتا، اور زمین پر انسانوں کی طرح رہ کر خالقِ کائنات کی عبادت کرنا ناممکن ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر روشن شاہراہ پر ڈال دیا۔
اللہ تعالیٰ نے دعوتِ اسلامیہ کی ابتدا قراء ت وکتابت کی دعوت کے ذریعہ کی ہے،اور محمد عربی اُمّی جنہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا، ان کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کو بنایا جس کی تلاوت ہوتی ہے، اور جو کتاب کی شکل میں لکھا جاتا ہے، اور اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعہ امتِ محمدیہ کو یکسر ناخواندگی کی حالت سے نکال کر علم کی دنیا میں پہنچا دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
((هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ)) [الجمعہ:2]
’’اُسی نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں، اور انہیں(کفروشرک کی آلائشوں سے ) پاک کرتے ہیں ، اور انہیں قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ اُن کی بعثت سے قبل صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘
2- اور توقف وحی کے بعد جو چھ آیتیں نازل ہوئیں ، اُن میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مندرجہ ذیل باتوں کا حکم دیا:
(ا)… آپ اُٹھیں اور اہلِ مکہ کو ڈرائیں کہ اگر وہ اَوثان واَصنام کی عبادت سے باز نہیں آئیں گے، جن کی ان سے پیشتر ان کے آباء واجداد عبادت کر رہے تھے، تو اللہ کا عذاب انہیں آلے گا۔
(ب)… آپ اپنے آقا ومالک اور اپنے تمام امور کی اصلاح کرنے والے ربّ ذو الجلال کی عظمت وکبریائی بیان کرتے رہیں، اور اعلان کرتے رہیں کہ اس کی ذات سب سے اعلیٰ وبرتر ہے، تخلیق وبادشاہی اور عبادت کسی میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور جیسا کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے کی تعلیم دی ہے، نماز ادا کرتے رہیں، اور امتِ اسلامیہ کو بھی اس کی تعلیم دیتے رہیں ۔
(ج)… آپ اپنے کپڑے ہر حال میں تمام نجاستوں سے پاک وصاف رکھیں، اور خاص طور سے نماز کی حالت میں ، اور اپنے باطن کو تو بدرجۂ اولیٰ تمام گندگیوں اور عقائد واخلاق کی پلیدگیوں سے یکسر پاک کیجیے۔
(د)… آپ اصنام واوثان سے بالکل کنارہ کش ہوجائیں۔ اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سے پیدا ہوئے بتوں کی عبادت سے بالکل دور رہے، اس لیے اس آیتِ کریمہ میں بتوں سے عداوت اور ان سے دور رہنے کی آپ کو مزید رغبت دلائی گئی ہے، اور لوگوں کو بتوں کی پرستش سے بالکل کنارہ کش ہوکر صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
(ہ)… اور یہ جو دعوت کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی گئی ہے ، تو اس کا آپ اپنے رب پراحسان نہ جتائیں، بلکہ اس کے بدلے ربّ العالمین سے اجر و ثواب کی امید رکھیں۔ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے: کسی کو کچھ دے کر آپ اُس پر احسان نہ جتائیں۔
|