مسلمان کاشتکاروں نے اس فوج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اورانہیں اندازہ ہوگیا کہ وہ خود ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے فوراً اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو اللہ کے دشمنوں کے آنے کی خبر دی۔
اور اہلِ مدینہ اپنے قلعوں کی فصیلوں پر کھڑے ہوکر اس تکلیف دہ منظر کا مشاہدہ کرنے لگے کہ اہلِ قریش کے اونٹ ہری بھری کھیتیوں کو ٹڈیوں کی طرح چاٹنے لگے، اور ان کے پیدل فوجی جانوروں کو ذبح کرنے لگے اور اُن کے گھوڑ سوار پکی کھیتیوں کو روندنے اور انہیں تباہ وبرباد کرنے لگے۔
جب مشرکوں کی فوج اپنی جگہ پر پہنچ گئی تو اُن کے قائدین لشکر کی صف بندی کرنے لگے جس کی قیادت مندرجہ ذیل طریقہ پر تھی:
فوج کا چیف کمانڈر ابو سفیان صخر بن حرب تھا، اور دائیں حصے کا کمانڈر خالد بن ولید اور بائیں حصہ کا عکرمہ بن ابو جہل تھا، اور پیدل فوجیوں کا کمانڈر صفوان بن امیہ اور تیر اندازوں کا کمانڈر عبداللہ بن ابی ربیعہ تھا، جب کہ علَم اٹھانے والا بنو عبدالدار کا مفرزہ نامی ایک آدمی تھا۔
ان کی فوج کی تعداد تین ہزار تھی، جس میں قریش کے بہترین اور ماہرین جنگ جوان شامل تھے، اور تمام کے تمام پوری طرح جنگ کے لیے آمادہ اور تیار تھے، اُن میں دو سو گھوڑ سوار بھی تھے جو گھوڑوں کی پشت پر سے جنگ کرنے کی پوری مہارت رکھتے تھے، سات سو زرہ بند فوجی تھے، جو مضبوط ترین زرہیں پہنے ہوئے تھے، اور سواریوں کی ایک بڑی تعداد پر سوار تھے، اور ان کے ساتھ تین ہزار اونٹ اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد اور وحشی نام کا حبشی غلام بھی تھا۔
ابو سفیان نے بنو عبدالدار کو مخاطب کرکے میدانِ بدر میں اہلِ قریش پر جو مصیبت مسلمانوں کے ہاتھوں نازل ہوئی تھی انہیں یاد دلائی، علم اٹھانے والے ان کے مشہور لیڈر نضر بن حارث کا قیدکیا جانا اور پھر اسے قتل کیا جانا بھی انہیں یاد دلایا، اور اُن سے کہا: اے بنی عبدالدار! بدر کے دن ہمارا جھنڈا تمہارے ہی ہاتھوں میں تھا، تو ہم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو تم نے دیکھ لی، اور ہمیشہ قوموں کے اوپر میدانِ جنگ میں مصیبت کے پہاڑ اُن کے جھنڈا اُٹھانے والوں کی وجہ سے ہی ٹوٹتے ہیں، جب جھنڈا گرجاتا ہے تو لوگوں میں بھگدڑ مچ جاتی ہے، اگر آج تم ہمارے جھنڈے کی حفاظت کرسکتے ہو تو اسے اٹھاؤ، ورنہ چھوڑ دو، تاکہ ہم تمہارے کسی نعم البدل کا انتظام کریں۔
ابو سفیان کی اس بات سے بنو عبدالدار کے لوگ سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے: کیا ہم اپنا جھنڈا کسی اور کو دے دیں؟ کل تمہیں پتہ چل جائے گا جب دشمن سے ہماری مڈبھیڑ ہوگی کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ چنانچہ جب گھمسان کی لڑائی ہونے لگی تو بنی عبدالدار والے سب کے سب ثابت قدم رہے، یہاں تک کہ ان کا ایک ایک آدمی قتل کردیا گیا۔
جنگ شروع ہوتی ہے:
سب سے پہلا مشرک جو میدان کارزار میں آگے آیا وہ ابو عامر فاسق تھا جس کا نام عبد بن عمرو بن سیفی تھا، اور جسے زمانۂ جاہلیت میں راہب کہا جاتا تھا، اس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسق رکھ دیا تھا، اور زمانہ جاہلیت میں وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا، جب اسلام آیا تو وہ حسد کرنے لگا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلانیہ عداوت کرنے لگا، اور مدینہ سے نکل کر قریشیوں کے پاس
|