مختصر یہ کہ مشرکین وادیٔ حنین سے اپنے پیچھے بہت سے مقتولین اور بہت سارے مال واسباب چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، اور بھاگتے ہوئے ان کا جانی نقصان میدانِ کارزار میں نقصان سے زیادہ ہوا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ دشمنوں کا پیچھا کریں اور جو بھی ملے اسے قتل کر دیں، اور اُن کی قوت ومعنویت کو کاری ضرب لگائی جائے، تاکہ وہ دوبارہ جمع ہوکر مسلمانوں سے جنگ کرنے کی نہ سوچیں۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ میدانِ معرکہ میں ان میں سے بانوے (92) قتل کیے گئے، اور بھاگتے ہوئے صرف بنومالک کے تین سو (300) آدمی قتل کیے گئے۔ اِ ن لوگوں کو مسلمان مجاہدین نے وادیٔ اَوطاس میں زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قتل کیا تھا۔ اِن کے علاوہ بھی وادیٔ اَوطاس میں دیگر مشرکین قتل ہوئے، بنو نصر بن معاویہ اور بنو رِئاب کے سیکڑوں لوگ قتل کر دیے گئے، یہ لوگ ہوازن کی بڑی اہم شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔ [1]
اس طرح ہوازن وثقیف کا بہت بڑا جانی نقصان ہوا، اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق قیدیوں کی تعداد چھ ہزار تھی۔ عروہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ اُن کی تعداد چھ ہزار تھی۔ ابن اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ زہری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مکہ میں لکڑیوں کے بنے مکانات اُن قیدیوں سے بھرگئے۔ اموالِ غنیمت میں چار ہزار اوقیہ چاندی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں، نیز گھوڑے، گائیں اور گدھے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تمامِ اموالِ غنیمت مقامِ جعّرانہ میں جمع کیے جائیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حصارِ طائف سے فارغ ہونے کے بعد واپس آجائیں۔
مسلمان مقتولین صرف چار تھے جن کے نام ابن اسحاق رحمہ اللہ نے ذکر کیے ہیں۔ کچھ صحابہ کرام کو زخم بھی لگے، اُن میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی، عبداللہ بن اَبی اَوفی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھم تھے۔ [2]
مشرکوں کی بھگدڑ:
مشرکین شکست کھا کر پہاڑوں اور وادیوں کی طرف بھاگ پڑے۔ مالک بن عوف نصری مشرکین کے ایک جتھہ کے ساتھ طائف بھاگا، اور ثقیف کے قلعہ میں بند ہوگیا، بعض مشرکین نے وادیٔ اَوطاس میں پہنچ کر مورچہ بندی کر لی، یہ وادیٔ طائف اور حنین کے درمیان ہے۔ اور ثقیف کے بنو غیرہ نے وادیٔ نخلہ میں پناہ لی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عامر کی قیادت میں ایک فوجی دستہ اَوطاس کی طرف روانہ کیا، وہاں انہیں دُرید بن صمّہ مل گیا، اسے انہوں نے قتل کر دیا، اور اس کے دیگر ساتھی شکست کھا کر وہاں سے بھی بھاگ پڑے۔ وہاں ابو عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں دشمن کا ایک تیر آکر لگا، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس کافر کا پیچھا کر کے اسے قتل کر دیا، اور واپس آکر ابو عامر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ انہوں نے اس تیر انداز کو قتل کر دیا۔ پھر انہوں نے وہ تیر ان کے گھٹنے سے نکالا۔ ابو عامر رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا: بھتیجے، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، انہیں میرا سلام پہنچاؤ اور کہو کہ وہ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
|