Maktaba Wahhabi

278 - 704
لگے۔ اللہ کی قسم! جب تک دھوپ ہمیں ستانے نہ لگتی ہم وہیں انتظار کرتے، اور ہمیں جب کوئی سایہ نہ ملتا تو اپنے گھروں کو واپس آجاتے، اس لیے کہ وہ زمانہ سخت گرمی کا تھا، یہاں تک کہ وہ دن آگیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ہم ہر روز کی طرح انتظار میں بیٹھے رہے اور جب کوئی سایہ باقی نہ رہا تو اپنے گھروں میں داخل ہوگئے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، اور پہلا آدمی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، ایک یہودی تھا، وہ اونچی آواز کے ساتھ پکارنے لگا، اے بنی قیلہ! یہ دیکھو! تمہاری خوش قسمتی آگئی۔ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے، آپ اُس وقت ایک کھجور کے سایے میں تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے ، جو آپ ہی کی عمر کے آدمی تھے ، اورہم میں سے اکثر لوگوں نے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا، لوگ آپ کے اِرد گرد جمع ہوگئے، لیکن نہیں جانتے تھے کہ آپ کون ہیں اور ابو بکر کون؟ یہاں تک کہ سایہ آپ کے سر سے ڈھل گیا، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اُٹھے اور آپ کے سر پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے، تب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا۔ [1] مسجد قبا کی تعمیر: صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے مروی احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ ربیع الأول میں سوموار کے دن مدینہ کے بالائی علاقے میں بنی عمرو بن عوف کے پاس تشریف فرما ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس چودہ راتیں رہے، اور اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے ۔ اور آپ نے اس میں نماز پڑھی، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور لوگ آپ کے ساتھ چلنے لگے، یہاں تک کہ مدینہ آکر مسجدِ رسول کے پاس اونٹنی بیٹھ گئی۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی جب اہلِ مدینہ کے سامنے پہنچے تو تمام اہلِ مدینہ یکبارگی نکل پڑے، یہاں تک کہ دلہنیں چھتوں کے اوپر سے آپ کو دیکھ کر پوچھنے لگیں ، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ، ہم نے اس سے پہلے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ صحیحین میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ ہجرت میں ہے کہ جب ہم لوگ مدینہ آئے تو لوگ راستوں اور چھتوں پر نکل آئے، اور غلام اور نوکر چاکر کہنے لگے: اللہ اکبر، رسول اللہ آگئے، اللہ اکبر، محمد آگئے ، اللہ اکبر، رسول اللہ آگئے، اللہ اکبر، محمد آگئے۔ اور جب صبح ہوئی تو جہاں جانے کا اللہ کی طرف سے حکم تھا وہاں چلے گئے ۔ بیہقی نے ابن عائشہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عورتیں اور بچے کہنے لگے: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ اَیُّہَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاعِ ان اشعار کا مختصر مفہوم یہ ہے: ’’ہمارے اوپر ثنیۃ الوداع پہاڑی کے اوٹ سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے ، جب
Flag Counter