سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے جب واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بات بتائی تو آپؐ نے وضو کیا اور دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کی اور کہا: اے اللہ! تو اپنے بندے ابو عامر کی مغفرت فر مادے، اے اللہ! قیامت کے دن تو اسے اپنے بہت سے بندوں سے اعلیٰ مقام عطا فرما۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے لیے بھی مغفرت کی دعا کر دیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو عبداللہ بن قیس کے گناہ معاف کر دے، اور قیامت کے دن اسے بہترین مقام عطا فرما۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیماء کا اسلام:
فتحِ ہوازن کے دن جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اپنے اسلام کا اعلان کیا، اُن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیماء بھی تھیں، جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ابن اسحاق وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے آکر کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کی رضاعی بہن ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے پاس اس کی کوئی نشانی ہے؟ شیماء نے کہا: ہاں، آپ نے میری پیٹھ میں ایک بار دانت سے کاٹ لیا تھا، جب میں آپ کو اپنی پیٹھ پر بٹھائے ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نشانی کو پہچان لیا، اور اپنی چادر اُن کے لیے بچھا دی، اس پر انہیں بٹھایا اور انہیں اختیار دیا۔ ابو عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو تین غلام، ایک لونڈی اور اونٹ اور بکریاں دیں، اور اُن کا نام حذافہ رکھا۔ ابو عمر کہتے ہیں کہ ’’شیمائ‘‘ اُن کا لقب رہا۔ [2]
امام بیہقی نے قتادہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ فتحِ ہوازن کے دن ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کی بہن شیماء بنت الحارث ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: اگر تم سچی ہوگی تو تمہارے پاس کوئی نشانی ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے اپنا بازو کھول دیا، پھر کہا: ہاں، یا رسول اللہ! میں آپ کو گود میں اٹھائے تھی تو آپ نے مجھے یہاں پر دانت سے کاٹ لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور کہا: مانگو تم کو ملے گا، اور سفارش کرو قبول کی جائے گی۔ [3]
معرکۂ حنین کا دُور رس نتیجہ:
اسلام کے حق میں اس معرکہ کے دور رس نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ دیہاتوں میں رہنے والے عرب اور وہ قبائلِ عرب جو اس معرکہ کے آخری انجام کا انتظار کر رہے تھے تاکہ اسلام سے متعلق اپنے آخری موقف کا اعلان کریں، اُن سب نے ہوازن کی اس بدترین شکست کے بعد اپنے دخولِ اسلام کا اعلان کر دیا، اور طائف اور اس کے مضافات میں اسلام نہایت تیزی سے پھیلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا علاقہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔
****
|