ابن سعد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر اپنی آنکھوں سے لگایا، اور تخت سے اُتر کر غایتِ تواضع میں زمین پر بیٹھ گیا، اور اسلام کا اعلان کردیا اور کلمۂ شہادت پڑھ لیا اور کہا: اگر میں اُن کے پاس پہنچ سکتا تو ضرور جاتا۔ اور پھر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قبولِ اسلام سے متعلق خط لکھا اور جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ جعفر رضی اللہ عنہ پہلے سے ہی حبشہ میں موجود تھے۔
اس خط کی عبارت سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے اور اس کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے رسول محمدؐ کے نام نجاشی اصحمہ کی طرف سے۔ اے اللہ کے نبی! آپ پر اللہ کی سلامتی ہو، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اما بعد! اے اللہ کے رسول! مجھے آپ کا وہ خط مل گیا ہے جس میں آپ نے عیسیٰ سے متعلق لکھا ہے، آسمان وزمین کے رب کی قسم! بے شک عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں جو آپ نے ذکر کیا ہے، وہ ویسے ہی ہیں جیسا آپ نے ذکر کیا ہے، اور آپ نے ہمارے پاس جو پیغام بھیجا ہے اسے سمجھ لیا ہے، اور ہم نے آپ کے چچا زاد بھائی اور اُن کے ساتھیوں کو اپنے آپ سے قریب کیا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بے شک اللہ کے رسول ہیں، سچے ہیں، اور سچ مانے گئے ہیں۔ نیز لکھا: میں نے آپ سے بیعت کرلی ہے، اور آپ کے چچا زاد بھائی سے بھی بیعت کرلی ہے، اور ان کے ہاتھ پر رب العالمین کی رضا کے لیے اسلام لے آیا ہوں۔ ‘‘
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی امّ حبیبہ رضی اللہ عنھا سے:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے خط میں نجاشی کو حکم دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی امّ حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھا سے کردے، اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے والے صحابہ کے ساتھ بھیج دے، اور انہیں زادِ سفر دے دے۔ نجاشی نے ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی امّ حبیبہ رضی اللہ عنھا سے کردی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُن کو چار سو دینار مہر دیا، اور دیگر مسلمانوں کو زادِ سفر اور دوسری چیزیں دیں، اور اُن سب کو دو سفینوں میں سوار کرکے عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ بھیج دیا۔ اور نجاشی نے ہاتھی کے دانت کے بنے ایک ورق دان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں خطوط رکھ دیے اور کہا: جب تک یہ دونوں خطوط ہمارے پاس رہیں گے حبشہ کی سرزمین خیریت کے ساتھ رہے گی۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ گرامی مصر کے قبطی حاکم مقوقس کے نام:
میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپسی کے بعد صحابہ کرام کو چھ شاہانِ سرزمین کے پاس بھیجا، انہی میں سے اسکندریہ کا بادشاہ مقوقس بھی تھا۔ اُس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا؛ اِس کا نام جریج بن میناء تھا، جیسا کہ ابن سیّد الناس نے دار قطنی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ اور اس مکتوب گرامی کی عبارت ابن سیّدالناس اور حافظ ابن القیم نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔ اور ریسرچ اسکالرڈاکٹر محمد حمید اللہ نے بھی الوثائق السیاسیہ میں ذکر کیا ہے، اور قزوینی، مقریزی، سیوطی، زیلعی، زُرقانی اور حلبی وغیرہم کے حوالے دیے ہیں۔ اس مکتوب کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے:
|