Maktaba Wahhabi

638 - 704
رکھنا جو اذان کی اُجرت نہ لے۔ [1] اِن تمام حالات و واقعات کے بعد وفد کے لوگ واپس چلے گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’لات‘‘ نامی بت اور دیگر بُتوں کو منہدم کرنے کے لیے ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنھما کو بھیجا۔ جب دونوں طائف پہنچے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو آگے کرنا چاہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ تم خود اپنی قوم کے پاس جاؤ، اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ خود اپنے مال کے ساتھ مقامِ ذو الہرم میں رُکے رہے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ لات نامی بُت کے پاس پہنچ کر، اس پر چڑھ گئے اور اس پر ہتھوڑا چلانا شروع کیا، یہ دیکھ کر اُن کی قوم بنومُعتِب کے لوگوں نے انہیں روکنا چاہا کہ کہیں بُت انہیں دور نہ پھینک دے یا اُن پر کوئی مصیبت نہ نازل ہو جائے، اور ثقیف کی عورتیں بال بکھیرے روتی ہوئی باہر نکل پڑیں۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اُس بُت کو منہدم کر دیا، اور اس کا مال اور سونے چاندی کے زیورات اپنے قبضہ میں کر لیے، اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر اُن کے حوالے کر دیے، اسی مال سے دونوں نے عُروہ بن مسعود اور اُن کے بھائی اسود کا قرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ’’لات‘‘ نامی بُت کی جگہ طائف کی مسجد بنائیں۔ [2] بلاشبہ ثقیف والوں کا ہتھیار ڈال دینا، اُن کا مدینہ آنا اور قبولِ اسلام کا اعلان کرنا دعوتِ اسلامیہ کی ایک عظیم کامیابی اور فتحِ جدید تھی، اس لیے کہ ہوازن اور ثقیف کے اعلانِ طاعت وفرمانبرداری کے بعد جزیرئہ عرب میں کوئی اہم قبیلہ باقی نہیں رہا جو اللہ اور رسول کے لیے اپنی اطاعت وتابعداری کا اعلان کرکے حلقہ بگوشِ اسلام نہ ہوگیا ہو۔ وہ قبائل جن کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی، اور جو طاقتور قبائل کے جوار میں رہتے تھے، انہوں نے فتحِ مکہ اور غزوئہ تبوک نیز طاقتور قبائل کے قبولِ اسلام کے بعد اعلانِ اسلام میں زیادہ تاخیر نہیں کی، جیسا کہ فتحِ مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفود کے فوج در فوج آنے کی تفصیلات بیان کرتے وقت ذکر کیا گیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی نماز میں شیطان کی تشویش اور اس کا علاج: عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص کہتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طائف کا حاکم مقرر کیا تو شیطان میری نماز میں تشویش پیدا کرنے لگا، مجھے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ میں سفر کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابن اَبی العاص ہو؟ میں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کس کام سے آئے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری نمازوں میں پریشانی لاحق ہوگئی ہے، مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شیطان ہے، میرے قریب آؤ، میں قریب ہوا اور اپنے قدموں پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے میرے سینہ پر ٹھوکر لگائی اور میرے منہ میں تُھک تُھکایا اور کہا: نکل اللہ کے دشمن۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter