Maktaba Wahhabi

260 - 704
رہا ہے ، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے، جو لوگ اپنے گھروں سے ناحق اس لیے نکال دیئے گئے کہ انہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘ مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دے دی گئی، اور انصارِ مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور مسلمان مہاجرین کی تائید ونصرت کا برملا اعلان کردیا، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے کا حکم دے دیا، تاکہ وہاں اپنے انصاری بھائیوں کے جوار میں باعزت زندگی گزار سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دینی بھائی پیدا کردیئے ہیں ، اور تمہیں ایک دار الہجرت عطا کیا ہے ، جہاں تم سب پناہ لے سکوگے، اس لیے جو چاہے یہاں سے نکل کر مدینہ چلاجائے ، جو یہاں سے قریب ہے، اور تم لوگ اسے اچھی طرح جانتے ہو، اس لیے کہ وہ تمہارے تجارتی قافلوں کے شام جانے کے راستے پر ہے ۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مل کر سفر کی تیاری کرنے لگے ، اور مال واسباب اور سواری کا انتظام کرنے لگے، اور پوری کوشش کی کہ مکہ سے ان کا نکلنا پوشیدہ رہے، چنانچہ وہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں نکلنے لگے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رہ کر ہجرتِ مدینہ کے لیے اللہ کی اجازت کا انتظار کرنے لگے۔ ابو سلمہ اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنھما کی ہجرت: قریشی مسلمانوں میں سے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالأسد بن ہلال مخزومی نے ہجرت کی۔ سیّدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ، تو انہوں نے اپنا اونٹ میری سواری کے لیے تیار کیا اور اس پر مجھ کو سوار کردیا، اور میرے ساتھ میرے بیٹے سلمہ بن ابو سلمہ کو میری گود میں بٹھادیا، پھر اونٹ کی رسی پکڑ کر چل پڑے، جب بنی مخزوم کے کچھ لوگوں نے ان کو دیکھا تو ان کے راستے میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے تم اپنے آپ کے مالک ہو، لیکن ہم تمہیں کیوں اجازت دے دیں کہ تم اپنی اس بیوی کو اپنے ساتھ دربدر کی ٹھوکریں کھلاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ان کے ہاتھ سے اونٹ کی رسی چھین لی اور مجھے اپنے قبضے میں کرلیا، پھر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنو عبدالأسد والے ناراض ہوکر کہنے لگے: جب تم لوگوں نے میرے قبیلہ کے آدمی سے اس کی بیوی کو چھین لیا ہے توہم اپنے قبیلہ کے بیٹے کو اس (عورت ) کے پاس نہیں چھوڑیں گے۔ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : وہ لوگ میرے بیٹے سلمہ کو ایک دوسرے سے چھینتے رہے یہاں تک کہ اس کا ہاتھ اکھاڑ دیا، اور بنو عبدالاسد اسے لے کر چلے گئے اور بنو مغیرہ والوں نے مجھے اپنے پاس روک لیا، اور میرے شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ، اس طرح میرے ،میرے شوہر اور میرے بیٹے کے درمیان جدائی ڈال دی گئی۔ سیّدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : میں ہر صبح نکل کر مقام ابطح میں آکر بیٹھ جاتی اور شام تک روتی رہتی ، تقریباً ایک سال تک میرا یہی حال رہا، یہاں تک کہ میرا ایک چچا زادمیرے پاس سے گزرا، اور میرا حال زار دیکھ کر اسے مجھ پر رحم آیا، اس نے بنی مغیرہ سے جاکر کہا: کیا تم اس بے چاری کو مکہ سے نکلنے کی اجازت نہیں دوگے، تم نے اس کے اور اس کے شوہر اور بیٹے کے درمیان جدائی پیدا کردی ہے ، تب لوگوں نے مجھ سے کہا: اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔ سیّدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: یہ جان کر بنو عبدالاسد نے میرا بیٹا مجھے لوٹا دیا تو میں اپنے اونٹ پر سوار ہوکر اور اپنے بیٹے کو گود میں بٹھاکر اپنے شوہر کے پاس مدینہ جانے کے لیے روانہ ہوگئی، اُس وقت کوئی آدمی میرے ساتھ نہیں تھا، میں نے دل
Flag Counter