ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں، اور اللہ تعالیٰ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے غصہ کی حالت میں چل پڑے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور اُن سے کہا: اے ابوبکر ! کیا ہم حق پر اور کفارِ قریش باطل پر نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر کہا: کیا ہمارے مقتولین جنت میں، اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہوں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر کہا: پھر ہم اپنے دین کے معاملہ میں کم تر پر کیوں راضی ہوجائیں اور واپس چلے جائیں، اور ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا ہے؟ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح کے بارے میں قرآن نازل ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلابھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ آیت سنائی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کا دل مطمئن ہوگیااور اپنی جگہ پر لوٹ گئے۔ صلح کی سب سے سخت شرط یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن مسلمانوں کو قریش کے پاس لوٹا دیں گے جو اِس صلح کے بعد مسلمان ہوکر آئیں گے، [1] اور قریش اُن لوگوں کو نہیں لوٹائیں گے جو مرتد ہوکر ان کے پاس چلے جائیں گے۔ اس ظالمانہ شرط سے مسلمانوں کے دلوں کو بڑی چوٹ لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان ہوکر ہمارے پاس آئے گا، ہم اُنہیں قریش کے پاس لوٹادیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کے لیے عنقریب آسانی پیدا کرے گا اور راستہ نکال دے گا، اورہم میں سے جو مرتد ہوکر اُن کے پاس چلا جائے گا، اُسے اللہ ہم سے دور کردے گا۔
سیّدنا عمرنے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنھما سے اس بارے میں استفسار کیاکہ کافروں نے مسلمانوں کو خانۂ کعبہ کے طواف سے روک دیا ہے، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اپنا خواب سنایا تھا کہ وہ عنقریب ہی پورے امن وسکون کے ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کریں گے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ایسا اسی سال ہوگا؟ یہ سن کر مسلمانوں کے دل مطمئن ہوگئے، اور اُن پر راحت وسکینت غالب آگئی۔
صلح نامہ کی کتابت:
جب دونوں فریق صلح کی شرطوں پر متفق ہوگئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سہیل نے کہا: میں ’’رحمان‘‘ کو نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے۔ اس لیے لکھو: (( بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ) ) جیساکہ تم پہلے لکھا کرتے تھے، مسلمانوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو: (( بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ) ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ عہد نامہ ہے جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اتفاق کیا ہے۔ تو سہیل نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہوتو تمہیں اللہ کے گھر سے نہیں روکتے اور نہ تم سے جنگ کرتے۔ اس لیے ’’محمد بن عبداللہ ‘‘لکھو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:: ’’رسول اللہ ‘‘ کو مٹا دو۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے ہاتھ سے ان کلمات کو نہیں مٹاؤں گا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا۔ زہری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اپنے اس سابقہ قول کے مطابق کیا کہ وہ مجھ سے ایسی کسی بات کا بھی مطالبہ کریں گے جس میں اللہ
|