اے اللہ! میں اِس سے راضی رہا ہوں، تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے دل میں سوچا، کاش میں اس میں دفن ہوا ہوتا۔ ابن ہشام کہتے ہیں: اُن کا نام ذوالبجادین اس لیے پڑا کہ وہ اسلام لانا چاہتے تھے تو اُن کی قوم نے انہیں روک دیا اور پریشان کیا، اس لیے وہ وہاں سے نکل پڑے، اُس وقت اُن کے پاس صرف ایک موٹی چادر تھی، اُس کے انہوں نے دو ٹکڑے کر دیے، ایک کو پہن لیا، اور دوسرے کو اوڑھ لیا، اور اسی حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ذو البجادین رکھ دیا۔ [1]
حاکمِ دُومۃ الجندل کے پاس قاصدِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
تبوک میں قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض قاصدوں کو اس علاقہ کے بعض بادشاہوں اور حُکّام کے پاس بھیجا؛ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُومۃ الجندل کے حاکم اکیدر بن عبدالملک کے پاس بھیجا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا، اُس وقت اُس کے بدن پر سونے سے مزیّن ایک ریشمی چادر تھی جسے خالد رضی اللہ عنہ نے اس سے چھین لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔
امام مسلم اور دیگر محدثین رحمہم اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ دُومۃ الجندل کے حاکم اکیدر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سُندس نامی ریشم کی ایک چادر ہدیہ کی، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اُسے دیکھ کر حیرت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بلاشبہ جنّت میں سعد بن معاذ کے رُومال اِس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ [2]
دربارِ قیصر میں قاصدِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
ابن حِبّان نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: میرا یہ خط لے کر کون قیصر کے پاس جائے گا، اُسے جنت ملے گی؟ ایک صحابی نے پوچھا: چاہے وہ قتل نہ کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہے وہ قتل نہ کیا جائے۔ وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط لے کر چل پڑے یہاں تک کہ قیصر کے پاس پہنچ گئے، اُن دنوں وہ بیت المقدس آیا ہوا تھا، اور اس کے لیے ایک قالین بچھایا گیا تھا جس پر اُس کے سوا کوئی نہیں چلتا تھا۔ صحابیِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خط اس قالین پر ڈال دیا اور ایک طرف ہوگیا۔ قیصر کی نظر اُس پر پڑی تو اسے اٹھا لیا اور اپنے بڑے پادری کے حوالے کیا اور پڑھنے کو کہا، اُس نے کہا: اس خط کے بارے میں آپ کی طرح مجھے بھی کچھ علم نہیں۔ تب قیصر نے پکارا: کون ہے یہ خط والا؟ اسے امان دی جاتی ہے۔ یہ سُن کر صحابی آگے بڑھے۔ قیصر نے کہا: جب میں اپنے دربار میں آؤں تو تم آنا۔ صحابی نے ایسا ہی کیا۔ قیصر نے حکم دیا کہ اُس کے محل کے دروازے بند کر دیے جائیں، اس کے لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر ایک منادی نے آواز لگائی: قیصر نے نصرانیت چھوڑ کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کر لی ہے۔
یہ سنتے ہی اُس کے فوجی ہتھیاروں سے لیس ہوکر آگے بڑھے اور اس کے محل کو گھیر لیا۔ تب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
|