Maktaba Wahhabi

217 - 704
سیّدنا حمزہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنھما کا قبولِ اسلام انہی مشکل ایام میں جب مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے ، زعمائے قریش میں سے دو بڑے زعماء نے اسلام قبول کرلیا دعوتِ اسلامیہ اور مسلمانوں کی نفسیات پر اس کا بڑا ہی مثبت اثر پڑا، وہ دونوں حمزہ بن عبدالمطلب اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھما تھے ۔ آئیے ہم ان دونوں کے قبولِ اسلام کا قصہ سنیں: حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلا م : 5 نبوی کے اختتام پراور 6کی ابتدا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلب نے اسلام قبول کرلیا، جو قریش کے ایک معزز ترین اور بااثر جوان تھے ۔ ان کے قبولِ اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی تقویت ملی اور قریشیوں کی ایذاء رسانی میں کچھ کمی آگئی۔ ان کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک دن ابوجہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، ابو جہل سامنے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے لگا اور آپ کے خلاف تکلیف دہ باتیں کرنے لگا، اور دینِ اسلام کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کرنے لگا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے اس کا جواب نہ دیا ۔ اس وقت عبداللہ بن جدعان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان باتوں کو سن رہی تھی، جو صفا پہاڑی کے اوپر اپنے ایک گھر میں رہتی تھی۔ ابو جہل وہاں سے چل کر کعبہ کے پاس اہلِ قریش کی مجلس میں آکر بیٹھ گیا ، کچھ ہی دیر کے بعد حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اپنا تیر وکمان اپنی گردن میں لٹکائے شکار سے لوٹے، ان کا گزر اس لونڈی کے پاس سے ہوا، تو اس نے کہا :اے ابو عمارہ! کاش آپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ ابوالحکم بن ہشام کی بدسلوکی ابھی کچھ دیر پہلے دیکھی ہوتی ! ابوجہل نے انہیں یہاں بیٹھا ہوا پایا تو ان کو گالی دی، اور بہت اذیت پہنچائی، لیکن محمدؐ نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ یہ سن کر حمز ہ غضبناک ہوگئے اور تیزی کے ساتھ چل کر مسجد حرام میں داخل ہوئے ، جہاں انہوں نے ابوجہل کو قریشیوں کے درمیان بیٹھا ہوا دیکھا، اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکر کمان سے اس کے سر پر ایک شدید ضرب لگائی جس سے اس کا سر بری طرح زخمی ہوگیا اور کہا : کیا تم میرے بھتیجے محمد کو گالی دیتے ہو، حالانکہ میں نے اس کے دین کو قبول کرلیاہے، میں وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے ، اگر تمہارے اندر طاقت ہے تو میری طرف ہاتھ بڑھاکر دیکھو۔ بنو مخزوم کے کچھ لوگ ابوجہل کی مدد کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا: اے حمزہ! ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم بے دین ہوگئے ہو ، تو حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور مجھے حق ظاہر ہونے کے بعد کون سی چیز قبولِ اسلام سے روک سکتی ہے ۔ میں گواہی دیتا ہو ں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ، اور ان کا قول برحق ہے۔ اللہ کی قسم! میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا، اگر تم لوگ سچے ہو تو مجھے روک دو۔ ابوجہل نے کہا: لوگو! تم ابوعمارہ سے درگزر کرو، اس لیے کہ میں نے اللہ کی قسم ! اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالیاں دی ہیں۔
Flag Counter