ایک روایت میں آیا ہے کہ آدم علیہ السلام اس وقت اپنی مٹی میں ملے ہوئے تھے ، اور ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کب سے نبی بنائے گئے؟ تو آپ نے فرمایا: اس وقت سے جب آدم علیہ السلام روح وجسم کے درمیان تھے۔ [1]
(3) یہود کو قربِ زمانۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم:
(ا)… ابن اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی سند سے عاصم بن عمر بن قتادہ کی قوم کے کچھ لوگوں سے روایت کی ہے ، انہوں نے کہا: اللہ کی رحمت اور اس کی ہدایت کے ساتھ جس بات نے ہمیں خصوصی طور پر اسلام لانے پر آمادہ کیا وہ یہ تھی کہ ہم لوگ تو مشرک اور بُت پرست تھے ،لیکن ہمارے پڑوس میں کچھ یہودی رہا کرتے تھے جن کے پاس ایسا علم تھا جو ہمارے پاس نہیں تھا۔اور ہمارے اور ان کے درمیان ہمیشہ جھڑپیں ہوا کرتی تھیں، جب ہم ان پر ایک درجہ غلبہ پاتے تو وہ کہنے لگتے کہ ایک نبی کی بعثت کا زمانہ قریب تر ہے، ہم ان کے ساتھ مل کر عادواِرم کے قتل کی مانند تمہیں قتل کریں گے،ہم یہ بات ان سے بارہا سنا کرتے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، اور انہوں نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا تو ہم نے ان کے پیغام کو قبول کرلیا اور اُس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا جس کا حوالہ دے کر وہ یہود ہمیں دھمکی دیاکرتے تھے، چنانچہ ہم ان سے سبقت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے، اور اُن یہودیوں نے آپ کا انکار کردیا۔ ہمارے اور ان کے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:
((وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ)) [البقرہ:89]
’’اور جب ان کے لیے اللہ کی طرف سے ایک کتاب آئی جو ان کے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کررہی تھی(تو اس کا انکار کر بیٹھے) حالانکہ اس سے قبل کافروں پر غلبہ کی تمنا (اسی کتاب کے ذریعہ) کرتے تھے، جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان گئے تو اس کا انکار کردیا، پس اللہ کی لعنت ہوکافروں پر۔‘‘ [2]
(ب)… اور سلمہ بن سلام بن وقش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو بدری صحابی تھے کہ ہمارا ایک یہودی پڑوسی ہمارے ساتھ بنو عبدالأشہل میں رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے گھر سے نکل کر بنوعبدالأشہل کے پاس آیا، ان دنوں میں ان میں سب سے کم سن تھا، اور اپنے گھر کے آنگن میں ایک چادر میں لپٹا لیٹا ہوا تھا۔
اس نے موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے، قیامت ، حساب، میزانِ عمل اور جنت وجہنم کا ذکر کرکے کہا کہ جہنم کی یہ آگ مشرکوں اور بُت پرستوں کے لیے ہے، جو سمجھتے ہیں کہ موت کے بعد کوئی آدمی دوبارہ نہیں اُٹھایا جائے گا، تو لوگوں نے اس سے کہا: اے فلاں ! تمہارا بھلا ہو ،کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ لوگ مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے بعد ایک ایسے عالم میں لائے جائیں گے جہاں جنت وجہنم ہوگی ، اور سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا؟
|