Maktaba Wahhabi

168 - 704
(ز)… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، اور وہ ہے ، سارے عالم کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا، اور جب آپ ایسا کریں گے تو عرب وعجم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ ہوجائیں گے، ایسی حالت میں آپ صبر کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ اوامر پر پورے طور پر عمل کیا۔اُن میں سب سے اہم، نمازوں کی متعین اوقات میں ادائیگی ہے، جیسا کہ ابتدائے وحی کے وقت ہی جبریل علیہ السلام نے آپؐ کو تعلیم دی تھی۔ چنانچہ آپؐ نے خود نماز پڑھی، اور جب گھر آئے تو اپنی بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کو جو سرزمین پر پہلی مسلمان تھیں ، وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا، پھرہر اس شخص کوسکھاتے رہے جو اسلام میں داخل ہوا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دل ودماغ میں یہ بات اتار دی کہ وہ جہاں بھی رہیں نماز ادا کریں، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنے گھروں میں ، مکہ کی گھاٹیوں میں ، اوردار ارقم میں، جو صفا پہاڑی پر تھا، مشرکین کی نظروں سے چھُپ کرنماز ادا کرتے رہے۔ صحابہ کرام اسی دار ارقم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جمع ہوا کرتے تھے ، اس لیے یہ گھر دعوتِ اسلامیہ کا پہلا مرکز اور اسلام اور مسلمانوں کے معاملات پرر ائے مشورہ کرنے کی پہلی جگہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عذابِ آخرت سے ڈرایا، اور اللہ کی عظمت وشان بیان فرمائی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتوں کی عبادت، ارتکابِ معاصی اور ہر بُرے اخلاق سے روکا۔ اور اللہ کے بعد آپ نے بنی نوع انسان پر احسان کیا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اسلام کی دعوت اُن تک پہنچائی، اور اس راہ میں اذیتوں اور صعوبتوں کو برداشت کیا، اور اس کے لیے بندوں سے کسی معاوضہ کی امید نہیں رکھی، بلکہ ان کا اجر تو انہیں اللہ سے ملنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر پورے عزم و قوت کے ساتھ قائم رہے، تمام تکلیفوں پر اللہ کی جانب سے ثواب کی امید میں صبر کرتے رہے، اور ان تمام صفاتِ عالیہ میں تمام انبیاء ورسل پر فوقیت لے گئے ۔ (اللہ کا درودوسلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر)۔ وجوبِ نماز، سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ایمان لانا، او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرنا: امام بخاری ومسلم نے ابتدائے وحی کی کیفیت کے بیان میں روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے نزول کے بعد فوراً خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدتِ رعب سے کانپ رہے تھے۔ آپؐ نے اُن سے کہا: مجھے کمبل اڑھاؤ، مجھے کمبل اڑھاؤ، تو گھر والوں نے آپ کو کمبل اڑھادیا، یہاں تک کہ آپؐ کا خوف جاتا رہا۔ پھر سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں، اُنہوں نے سارا ماجرا سننے کے بعد کہا کہ یہ تو وہی ناموس (جبریل) تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے توورقہ کے پاس آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان دلادیا تھا،اور کہا تھا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ اور شادی کے بعد بھی انہوں نے آپؐ سے کہا تھا: مجھے امید ہے کہ آپؐ ہی وہ نبی ہوں گے جنہیں مبعوث کیا جائے گا، جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے ۔ یہ ساری باتیں اس امر کی واضح دلیل تھیں کہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا پہلے سے ہی اس حق کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھیں، جسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا
Flag Counter