Maktaba Wahhabi

401 - 704
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنیچر کے دن ہی شام کو اپنے گھروالوں کے پاس پہنچ گئے اور اپنی تلوار (ذوالفقار)اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ کودیتے ہوئے کہا: اے بیٹی! اس میں لگے خون کو دھودو، اللہ کی قسم! آج اس نے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے، اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار دی اور کہا: اس میں بھی لگے خون کو دھودو، اللہ کی قسم! آج اس نے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے پورے اخلاص کے ساتھ آج جنگ کی ہے تو تمہارے ساتھ سہل بن حنیف اور ابودجانہ رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی جان لگا کر جنگ کی ہے۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے کہا: اب مشرکین آج کی طرح کبھی بھی ہمیں تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں فتح ونصرت عطا فرمائے گا۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بعض ان مسلمانوں سے ملاقات کی، جو شکست خوردہ ہوکر بھاگ آئے تھے، آپؐ نے ان کے ساتھ سختی کے ساتھ بات نہیں کی، بلکہ بالکل نرم انداز میں گفتگو کی اور ان کی لغزش کو معاف کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی مشفقانہ اور رحیمانہ موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ((فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ)) [آلِ عمران: 159] ’’ آپ محض اللہ کی رحمت سے اُن لوگوں کے لیے نرم ہوئے ہیں، اور اگر آپ بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، پس آپ انہیں معاف کردیجیے، اور ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے، اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجیے، پس جب آپ پختہ ارادہ کرلیجیے تو اللہ پر بھروسہ کیجیے، اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ ‘‘ لیکن بدخواہ یہود اور فتنہ انگیز منافقین اور اطرافِ مدینہ میں رہنے والے بادیہ نشین مشرکین نے مسلمانوں کی مصیبت پر خوب خوشی منائی، انہیں معلوم نہیں تھا کہ انجام کار عزت اور غلبہ اللہ کے لیے اوراس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہی ہے۔
Flag Counter