لے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: میں نے دل میں کہا: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ترجیح نہیں دیں گے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: تب میں نے اس حدیث کا مطلب سمجھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت کی حالت بیان فرمایا تھا کہ ’’کوئی نبی بھی اُس وقت تک دنیا سے نہیں اٹھایا جاتا جب تک وہ جنت میں اپنی جگہ نہ دیکھ لے، پھر اُسے اختیار دیا جاتا ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: آخری کلمہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا یہی تھا، ’’ اے اللہ! اب مجھے اوپر بُلالے‘‘۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو صحیح روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ (63) سال تھی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب وفاۃ النبی رضی اللہ عنھم میں اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الفضائل میں اور ترمذی وغیرہم نے روایت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سوموار کے دن بارہ ربیع الأول سن 11 ہجری کو ہوئی۔ اُس دن آپ تریسٹھ سال چار دن کے تھے۔
سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا اور رونے لگے:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: ابو بکر رضی اللہ عنہ مقامِ سُنح میں ، اپنے مسکن سے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر آئے، مسجد میں داخل ہوئے، کسی سے بات نہیں کی، اور میرے پاس پہنچے پھر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک کپڑا ڈال دیا گیا تھا، آپؐ کا چہرہ کھولا، اور آپؐ پر جُھک گئے، آپؐ کو بوسہ دیا اور رونے لگے، پھر کہا: میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو دوبار موت نہیں دے گا۔ جو موت آپ کے لیے لکھی ہوئی تھی وہ آچکی۔ [2]
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنھم کے سر مبارک کی طرف سے آئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا: ہائے! ہمارے نبی، پھر اپنا سر اٹھایا، اور دوبارہ منہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا: ہائے، میرے مخلص۔ پھر اپنا سر اٹھایا، اپنا منہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا: ہائے!میرے مخلص وجگری دوست اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔ [3]
مسند احمد کی ایک دوسری روایت میں ہے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان رکھا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں کنپٹیوں پر رکھا اور کہا: ہائے! ہمارے نبی، ہائے! میرے خلیل، ہائے! میرے مخلص۔
سب سے تاریک دن:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے ہر صحابی سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے زیادہ محبت کرتے ہیں، تمام صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں زندگی گزارنے کی عادت پڑگئی تھی جیسے چھوٹے بچے اپنے والدین کے سایۂ عاطفت میں سکون محسوس کرتے ہیں، بلکہ والدین سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں سکون محسوس کرتے تھے۔ قرآن کریم نے میری اور مجھ جیسوں کی اس فکر کی تائید مندرجہ ذیل آیت میں کی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ)) [التوبہ:128]
|