Maktaba Wahhabi

142 - 704
چچا کے ساتھ شام کا سفر اور بحیرا راہب کی بات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کے گھر میں رہتے رہے، اور عمر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل اور قوتِ ادراک واحساس ترقی کرتی رہی۔ چچا کے ساتھ آپ کی وفاداری کا تقاضا تھا کہ تلاشِ معاش سے متعلق ان کی تگ ودو میں شرکت کریں، اس لیے کہ ابوطالب کثیر العیال اور قلیل المال تھے ۔ آپ نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ انہیں رزقِ حلال کی تلاش میں اپنے چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ سال کے ہوئے اور آپ کے چچا نے تجارت کے لیے ملکِ شام کا سفر کرنا چاہا تو آپ نے ان سے کہاکہ وہ بھی ان کے ساتھ چلیں گے، تاکہ سفر کی ضروریات اور کارو باری امور میں اُن کی مدد کریں ، اور آپ مصر رہے ، یہاں تک کہ ابوطالب نے اُن کی بات مان لی، اور دونوں ایک ساتھ سفر پر روانہ ہوئے۔ جب یہ تجارتی قافلہ حدودِ شام پر موجود شہر’’بُصریٰ‘‘ پہنچا تو راستہ کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، جس کے قریب بحیرانامی راہب کا عبادت خانہ تھا، یہ راہب انجیل کا علم رکھتاتھا۔ راوئِ حدیث ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: راہب نکل کر ان کے پاس آیا، اِس سے پہلے جب یہ لوگ وہاں پڑاؤ ڈالتے تو وہ نکل کر اُن کے پاس نہ آتا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہوتا۔ قافلہ والے جب اپنا سامانِ سفر کھول رہے تھے تو راہب لوگوں کے درمیان سے چلتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا، اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا: یہ تو سارے عالم کے سردار ہیں ، یہ تو ربّ العالمین کے رسول ہیں ، اللہ نے انہیں رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا ہے، یہ سن کرکچھ عمر رسیدہ قریشیوں نے کہا:تمہیں اس بات کا کیسے علم ہوا؟ اُس نے کہا: تم لوگ جب گھاٹی کے قریب پہنچے تو ہر شجر وحجر سجدے میں گرگیا تھا، اور یہ دونوں صرف کسی نبی کو ہی سجدہ کرتے ہیں، اور میں اِن کو اُس ختمِ نبوت کے ذریعہ پہچانتا ہوں جو سیب کی مانند آپ کے کندھے کے نیچے پایاجاتا ہے۔ راہب فوراً عبادت گاہ میں لوٹا، اور ان سب کے لیے کھانابناکر لے آیا۔ اس وقت آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )اونٹوں کی دیکھ بھال میں لگے تھے۔لوگوں نے کہا: محمد کو بلالیا جائے: جب آپ آئے تو ایک بادل آپ پر سایہ فگن تھا، جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ سب درخت کے سایے تک آپ سے سبقت کرکے پہنچ گئے تھے۔ جب آپ بیٹھ گئے تو وہ درخت آپ پر سایہ فگن ہوگیا۔ راہب نے کہا: لوگو! دیکھو درخت کا سایہ اِن کی طرف مائل ہوگیا۔ [1] اس قصے کی ایک روایت میں آیا ہے کہ بحیرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے پر کسی چیز کو تلاش کرنے لگا ،وہاں اس نے ختمِ نبوت کو دیکھا ، اور ابو طالب سے از راہ ِخیر خواہی کہا کہ وہ آپ کو لے کر مکہ لوٹ جائیں ، اس لیے کہ آپ کو یہود سے خطرہ ہے ، جو آپ کے خلاف اپنے دل میں بُرائی چھپائے ہوئے ہیں ۔ اس نے یہ بھی کہا: آپ کے بھتیجے بڑی شان والے ہوں گے ؛ چنانچہ ابوطالب نے آپ کو ایک آدمی کے ساتھ مکہ واپس بھیج دیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : ابو طالب ملکِ شام میں اپنی تجارت
Flag Counter