رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی ؓنماز میں آمین بآواز بلند نہیں کہتے تھے۔ بکرنے جواب میں لکھا کہ اس روایت کی سند کا بالائی حصہ اس طرح پر ہے۔ عن ابی سعید عن ابی وائل قال کان الخ ۔ اس سند میں ابو سعید واقع ہیں ۔ اور یہ ابو سعید ضعیف اس وجہ سے یہ روایت قابلِ استدلال نہیں۔ زید نے لکھا کہ ابی سعید کا ضعف کسی کتابِ رجال سے ہر گز ثابت نہیں۔ بکر نے جواب دیاکہ میں نے جو لکھا ہے کہ ابی سعید ضعیف ہیں سو ان کا ضعف کتاب رجال سے ثابت ہے۔ تقریب میں ہے۔ضعیف مدلس خلاصہ میں ہے۔ قال النسائی ضعیف قال الذھبی ماعلمت احداوثقہ۔ دلیل ضعف دیکھ کر زید بالکل ساکت اور لاجواب ہو گیا۔ اور جب کچھ نہیں بنا تو حضرت شوق کی وہی مہمل تقریر دھر گھسیٹی کہ ہر گز اپنے بون (یعنی ابی سعید) نہیں لکھا ہے،بلکہ ابو سعید لکھا ہے اور مکر ر اسی طرح لکھا ہے۔ اب دیکھئے کہ اولاً آپ نے یہ غلطی کی کہ اس روایت کے بعض الفاظ غلط طور پر نقل کیے ۔ثانیاً اب کس دلیری سے آپ لکھتے ہیں کہ میں نے ابو سعید لکھا ہے جو بالکل غلط ہے۔ حضرات ناظرین!ملاحظہ فرمائیں جس طرح زید نے پہلے ابو سعید کے ضعف کا صاف انکار کیا ۔ اور جب دلیل ضعیف دکھلائی گئی تو ابی سعید اور ابو سعید کا لغو جھگڑا نکالا۔ اسی طرح ہمارے مخاطب نے پہلے جب ۲۴ رات والی روایت کا صاف انکار کیا۔ اور جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ روایت صحیح بخاری کے(ص۶۱) میں موجود ہے ،تو بالکل ساکت اور لاجواب ہو کر اربع وعشرون اور اربعا وعشرین کا مہمل اعتراض پیش کیا ۔فاعتبروایا اولی الابصار ۔ قال: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے توچوبیس والی روایت ہر گز نہیں لکھی الخ۔ اقول: آپ اپنی غلطی کا اشتہار دے چکے اور صاف لفظوں میں اعتراف کر چکے کہ ۲۴ والی روایت صحیح بخاری میں موجود ہے اور اس تبصرۃ النظار میں بھی آپ لکھتے ہیں کہ ’’ہر شخص |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |