ہوگیا ہے، انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں شیطان کی آزمائش میں کبھی نہیں ڈالے گا۔ تم میں تو یہ اور یہ اچھی صفات ہیں۔ تم نے کیا دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جب بھی بتوں میں سے کسی کے قریب گیا تو میرے سامنے ایک سفید لمبا آدمی آکر چیخنے لگا: اے محمد! پیچھے ہٹ جائیے، اسے ہاتھ نہ لگائیے۔ امّ ایمن رضی اللہ عنہ کہتی ہیں : اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کی کسی عید میں شریک نہیں ہوئے ، یہاں تک کہ آپ نبی بنا دیئے گئے۔ [1]
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے محمد بن عمر کے اساتذہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیرا سے کہا تھا: مجھ سے کوئی بات لات وعزّیٰ کی قسم دے کر نہ پوچھو، اللہ کی قسم ! میں نے ان دونوں سے زیادہ کسی چیز کو مبغوض نہیں جانا۔ [2]
اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ تانبے کا بنا ہوا ایک بُت تھا جس کا نام’’ إساف‘‘ یا’’ نائلہ‘‘ تھا۔ مشرکین طواف کرتے وقت اُس پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ ایک بار میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف کیا، اور اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اس پر ہاتھ پھیرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو ہاتھ مت لگاؤ۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اپنے دل میں سوچا، اسے ضرور ہاتھ لگاؤں گا ، تاکہ دیکھوں کیا ہوتا ہے ؛ میں نے دوبارہ ہاتھ پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا تم کو روکانہیں گیا تھا؟! بعض مؤرخین نے یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے کبھی کسی بُت کو ہاتھ نہیں لگایا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت اور وحیِ قرآن کے ذریعہ آپ کو عزت بخشی۔ [3]
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے : جوشخص کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے دین پر تھے، بہت ہی بُری بات کہتا ہے۔ کیا یہ بات ثابت نہیں ہے کہ آپ بُتوں کے سامنے ذبح کیے گئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے تھے؟
ابو الوفاء علی بن عقیل کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت اور نزولِ وحی کے پہلے سے ہی دینِ ابراہیمی کی صحیح باتوں کے مطابق دین دار تھے۔ [4]
امورِ جاہلیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت:
ابن اسحاق وغیرہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جاہلیت کے قبیح کاموں میں سے کسی بھی کام کا دوبارکے سواکبھی ارادہ نہیں کیا۔ اور دونوں ہی بار اللہ نے مجھے بچالیا؛ میں نے ایک رات ایک قریشی جوان سے کہا: تم میری بکریوں کا خیال رکھو تاکہ آج کی رات میں مکہ جاکر دیگر نوجوانوں کی طرح کچھ سرود وغناء کی مجلسوں میں شرکت کروں ۔ اس نے میری بات مان لی تو میں وہاں سے نکل کر مکہ کے سب سے قریب گھر کے پاس آیا ، جس کے اندر سے گانے اور ڈھولک اور بانسری کی آواز آرہی تھی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا: یہاں کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے کہا: فلاں کی شادی ہوئی ہے ۔ میں وہیں بیٹھ کرسننے لگا، یہاں تک کہ مجھے نیندآگئی، اور جب آفتاب کی گرمی سے میری آنکھ کھلی تو میں اپنے ساتھی کے پاس لوٹ گیا۔ پھر دوسری رات بھی میں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کے بعد کبھی بھی اہلِ جاہلیت
|