کہی، تو ابرہہ کو بڑا تعجب ہوا، اور عبد المطلب کی حیثیت اس کی نگاہ میں کم ہوگئی، اور کہا: تم مجھ سے دو سو اونٹوں کی بات کر رہے ہو، اور اس گھر کا نام نہیں لیتے جو تمہارا اور تمہارے آباء واجداد کا دین ہے، جسے گِرانے کے لیے میں آیا ہوں۔
عبد المطلب نے اس سے کہا: میں صرف اونٹوں کا مالک ہوں، گھر کا مالک ربّ ذوالجلال ہے، وہ اس کا دفاع کرے گا۔ ابرہہ نے کہا: وہ گھر میری زد سے نہیں بچ سکے گا۔ عبد المطلب نے کہا: تم جانو اور وہ گھر والا جانے!!
عبد المطلب جب وہاں سے واپس آئے تواہلِ قریش کو جمع کیا، اور اُن کو ساری بات سُنائی، اور انہیں مکہ سے نکل کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور اُن میں خفیہ جگہوں پر چلے جانے کو کہا، تاکہ ابرہہ کی فوج انہیں روند نہ ڈالے۔ پھر عبد المطلب کچھ مخصوص قریشیوں کے ساتھ کعبہ کے پاس گئے، اور اس کے دروازہ کی کنڈی پکڑ کر اللہ سے خوب دعا کی، اور ابرہہ اور اس کی فوج کے خلاف رو رو کر مدد مانگی۔ دعا سے فارغ ہو کر اپنی قوم کے پاس چلے گئے ،اور انتظار کرنے لگے کہ ابرہہ مکہ میں داخل ہو کر کیا کرتا ہے؟!
ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے پورے طور پر تیار ہوگیا، اور اپنی فوج کو بھی تیار کر لیا، اور سب سے بڑے ہاتھی کو آگے کرکے اُس کا رُخ حرم کی طرف کر دیا، جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادیٔ محسر میں پہنچا،تو ہاتھی زمین پر بیٹھ گیا، اُن لوگوں نے اسے لاکھ ضرب لگائی، نہیں اٹھا۔ تب انہوں نے اُس کا رُخ یمن کی طرف کردیا، وہ فوراً اٹھ کر دوڑنے لگا، پھر اُس کا رُخ شام کی طرف کیا، تو دوڑنے لگا، پھر مشرق کی طرف اُس کا رُخ کیا تو اسی طرح دوڑنے لگا جس طرح یمن اور شام کی طرف دوڑنے لگا تھا۔ پھر دوبارہ اس کا رُخ مکہ کی طرف کیا تو بیٹھ گیا۔
ابرہہ اور اس کی فوج کے لوگ اپنے بڑے ہاتھی کے ساتھ وادیٔ محسر میں اسی پریشانی کے عالم میں تھے کہ اہلِ قریش کیا دیکھتے ہیں کہ سمندر کی طرف سے چھوٹی چھوٹی چڑیاں جُھنڈ کی جُھنڈ آرہی ہیں، اور اُن پر کنکر برسا رہی ہیں اور انہیں فوراً ہلاک کر دے رہی ہیں۔ ہر چڑیا تین کنکر اٹھائے ہوئی تھی۔ ایک چونچ میں، اور دو اپنے دونوں پاؤں میں۔
ابرہہ کی فوج کے لوگ بھاگنے لگے، اور بھاگتے ہوئے ہر طرف مر مر کر گِرنے لگے۔ ابرہہ کو بھی اس کے نام کا پتھر لگا، اس کے لوگ اسے لے کر بھاگے،پہلے تو اس کی انگلیاں کٹ کر چاروں طرف بکھرنے لگیں، پھر اس کا سارا جسم کاری ضرب سے نشانِ عبرت بن گیا۔ اُسے اُسی حال میں صنعاء لے کر آئے۔ اُس کا جسم چڑیا کے چوزہ کی طرح نحیف ونزارہوگیا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُس کا سینہ پھٹ گیا، دل باہر آگیا، اور ہلاک ہوگیا۔
جب عبد المطلب اور قریشیوں نے اپنی آنکھوں سے اُس عذاب کودیکھ لیا جو ابرہہ کی فوج پر نازل ہوا تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس آگئے۔ اور اس واقعہ کے بعد تمام عالمِ عرب کو بیتِ حرام (کعبہ) کی عظمت اور قریش کے مقامِ اعلیٰ کا مزیدیقین ہوگیا۔
اس حادثہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور تاریخِ دعوتِ اسلامیہ سے بڑا گہرا تعلق ہے، آپ اپنے باپ عبداللہ ذبیح کے گھر اسی سال پیدا ہوئے۔ اس طرح یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وشرف کی دلیل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ولادت کی طرف اشارہ، اور بحیثیت نبی مرسل آپ کی بعثت کی خبر دے رہا تھا،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ کعبہ کو بتوں سے پاک
|