Maktaba Wahhabi

569 - 704
ساتھ اِس عہد نامہ میں شریک ہونا چاہے گا،ہوگا، اور جو کوئی قریشیوں کے ساتھ ہونا چاہے گا، اسے اختیار ہوگا۔ چنانچہ قبیلۂ خزاعہ کے لوگ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگئے، اور بنی بکر کے لوگ قریش کے ساتھ۔ خزاعہ اور بنی بکر کے درمیان قبل از اسلام قدیم انتقاموں کے جذبے کار فر ما تھے۔ لیکن اسلام آنے کے بعد مسلمان اور کفار سبھی لوگ اسی قضیہ کبریٰ میں مشغول ہوگئے۔ صلحِ حدیبیہ کے بعد حالات کافی حد تک پُر سکون ہوگئے، اور مذکورہ بالا دونوں قبیلے دونوں فریقوں (مسلمان اور قریش) کی طرف مائل ہوگئے، اور اس طرح عہد نامۂ صلح کے بعد تمام لوگ تقریباً سترہ یا اٹھارہ ماہ تک پُر سکون رہے۔ البتہ قبیلۂ بنی بکر کی شاخ (الدیل) کے لڑکوں نے صلح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا بعض قدیم انتقام لینا چاہا، اور رات کے وقت خزاعہ والوں پر حملہ کرکے ان کے بعض افراد کو قتل کر دیا۔ قریشیوں نے سوچا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس کی خبر نہیں ہوگی، اور رات کا وقت ہے، اور ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، اس لیے انہوں نے بنی بکر کی ہتھیاروں اور دیگر اسبابِ جنگ کے ذریعہ مدد کی، اور اُن کے ساتھ مل کر خزاعہ کے خلاف جنگ کی۔ خزاعہ کے لوگ گھبرا کر مکہ کی طرف بھاگے اور حرم کے حدود میں واقع بُدَیل بن ورقاء کے گھر میں داخل ہوگئے، اور اُس سے قریش اور بنی بکر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد عہدی کی شکایت کی۔ اُدھر عمرو بن سالم خزاعی چالیس سواروں کے ساتھ فوراً ہی مدینہ کے لیے روانہ ہوگیا، اور مسجدِ نبوی میں داخل ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچ گیا، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فر ما تھے۔ عمرو نے تمام حالات بتاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کی درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمام باتیں سن کر فرمایا: اے عمرو! تمہاری مدد یقینا کی جائے گی۔ اُسی وقت بادل کا ایک ٹکڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے اوپر سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بادل بنی کعب کی نُصرت وتائید کی خبر دے رہا ہے۔ [1] ابو سفیان مدینہ میں: چونکہ یہ حادثہ قریشیوں کی جانب سے صلح کی خلاف ورزی تھی، اسی لیے بعد میں وہ ڈرے اور اس بد عہدی کے بُرے نتائج کے بارے میں سوچنے لگے، اور انہیں یقین ہوگیا کہ کسی بڑے خطرہ کی گھنٹی بجنے لگی ہے، اس لیے کہ محمد بن عبداللہ اُن سے خزاعہ والوں کا انتقام ضرور لے گا، اسی لیے زعمائے مکہ نے فیصلہ کیا کہ ابو سفیان کی نگرانی میں ایک وفد مدینہ بھیجیں تاکہ صلح نامہ کی تجدید کر لیں، اور اس کی مدت بھی بڑھوا لیں۔ ابو سفیان اس کام کے لیے نکلا تو راستہ میں اس کی ملاقات مقامِ عُسفان پر بُدیل بن ورقاء سے ہوگئی جو مدینہ سے مکہ واپس جا رہا تھا۔ ابو سفیان نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آرہا ہے؟ (اور اسے پہلے سے گمان تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آرہا ہے) اس نے کہا کہ میں ساحل کے کنارے وادی میں رہنے والے خزاعہ کے لوگوں کے پاس گیا تھا۔ اس نے دوبارہ پوچھا: کیا تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس نہیں گئے تھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ بُدیل جب مکہ کی طرف چل پڑا تو ابو سفیان نے کہا: اگر یہ شخص مدینہ گیا تھا تو اس کی سواری نے کھجور کی گٹھلی ضرور کھائی ہوگی۔ چنانچہ وہ اُس جگہ آیا جہاں اس کی سواری بیٹھی تھی، اور اس کے گوبر کو کُریدا، تو اس میں اُسے گٹھلی ملی۔ اس نے قسم کھا کر اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ آدمی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس ضرور گیا تھا۔
Flag Counter