Maktaba Wahhabi

227 - 704
اعلانِ براء ت کردو۔ یہ سن کر مشرکینِ قریش تالیاں بجانے لگے اور کہنے لگے : اے محمد! کیا تم تمام معبودوں کو ایک معبود بنادینا چاہتے ہو، تمہارا معاملہ عجیب وغریب ہے ، پھر انہو ں نے ایک دوسرے سے کہا : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات نہیں مانے گا، اس لیے یہاں سے چلو، اور اپنے آباء واجداد کے دین پر قائم رہو، یہاں تک کہ اللہ تمہارے اور اس کے درمیان فیصلہ کردے، پھر وہ سب لوٹ گئے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : ان ہی مشرکینِ قریش کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: ((ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ ﴿1﴾ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ ﴿2﴾ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ ﴿3﴾ وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿4﴾ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿5﴾ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴿6﴾ مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ)) [صٓ:1-7] ’’ص، اس قرآن کی قسم جو شرف وعظمت والا ہے (یا جس میں نصیحت ہے کہ محمد ساحر وکاذب نہیں ہیں)، اہلِ کفر غروراور مخالفت میں پڑگئے ہیں، ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا، تب وہ پکار اُٹھیں، وہ وقت چھٹکارا پانے کا نہیں تھا، اور انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ اُن کے پاس اُنہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا، اور کافروں نے کہا، یہ آدمی تو جادوگر اور پکّا جھوٹا ہے، کیا اس نے تمام معبودوں کا ایک معبود بنا دیا ہے ، یقینا یہ بات بہت زیادہ تعجب میں ڈالنے والی ہے، اور سردارانِ کفر یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ چلو اور اپنے معبودوں (کی عبادت) پر جمے رہو، بے شک یہ ایک سوچی سمجھی بات ہے، ہم نے تو یہ بات اقوامِ گزشتہ کی تاریخ میں نہیں سنی ہے، توحید کی یہ بات تو (اسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) گھڑی ہوئی ہے۔‘‘ یہ واقعہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ بتوں کی محبت مشرکینِ قریش کی گھٹی میں پڑی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے زعماء وساداتِ قریش کی بصارت چھین لی تھی، اور اُن کے دلوں پر مہر لگا دی تھی، اس لیے وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ، اور اُن کی موت کفر پر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سنا تو غصہ سے پاگل ہونے لگے ، اور دعوتِ توحید کا صریح انکار کرتے ہوئے ابوطالب کی مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے، اور اپنی گمراہی اور ضلالت پر اصرار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نئی نئی سازشیں سوچنے لگے۔ [1] ابوطالب کی وفات، اور آخرت میں اُن کا انجام: گھاٹی سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ماہِ رمضان، یا نصف شوال، یا ابتدائے ذی القعد ہ 10 نبوی میں ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ اُس وقت اُن کی عمر اسی(80) سال تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انچاس سال، آٹھ ماہ اور اکیس دن یا آٹھ دن کے تھے۔ اور اِس واقعہ کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔
Flag Counter