Maktaba Wahhabi

228 - 704
ابوطالب کی موت کے تین دن بعد دس رمضان کو سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ بعض کا خیال ہے : پانچ دن کے بعد، بعض کہتے ہیں : پینتیس دن بعد، اور ایک قول کے مطابق: پچپن دن بعد۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کا نام (عام الحزن)’’غم کا سال‘‘ رکھ دیا۔ اس لیے کہ اُس سال آپ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ابوطالب ہلاک ہوگئے جو آپ کی حمایت اور آپ کا دفاع کرتے تھے، اور خدیجہ رضی اللہ عنہ وفات پاگئیں جوہر آزمائش کی گھڑی میں آپ کی مخلص ساتھی اور غایت درجہ دور اندیش مشیر کار تھیں، خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ کی تائید کرتیں اور آپ کو تسلی دیتیں ۔ باری تعالیٰ کے قول: {وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْأَوْنَ عَنْہُ}[الانعام:26]’’اور وہ لوگ دوسروں کو اس (قرآن) سے روکتے ہیں، اور خود بھی اس سے اعراض کرتے ہیں۔‘‘…کی تفسیر کے ضمن میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ یہ آیتِ کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو مشرکین کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے منع کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے سے خود اعراض کرتے تھے۔ [1] امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خانۂ کعبہ کے سامنے نماز پڑھ رہے تھے ، تو ابن الزبعری نے ابوجہل کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر گوبر اور خون مل دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ترک کرکے اپنے چچا کے پاس گئے۔ انہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دیکھ کر پوچھا کہ ایسا تمہارے ساتھ کس نے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن الزبعری نے۔ ابوطالب وہاں سے فوراً خانۂ کعبہ کے پاس اپنی تلوار لیے آئے، اور قریشیوں کے قریب پہنچ کر ابن الزبعریٰ اور کچھ دیگر مشرکین کے چہروں ،داڑھیوں اور کپڑوں پر گوبر اور خون مل دیا ، اورانہیں بہت بُرا کہا، اُس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوطالب کی موت کے چند دن پہلے ان کے ایمان لانے کی امید اس وقت زیادہ ہوگئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کا وہ جواب سنا جو انہوں نے مشرکین کو دیا تھا جب وہ ابوطالب کے پاس آئے تھے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان صلح وصفائی کی کوئی راہ نکال دیں، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے معبودوں کی عیب جوئی سے باز آجائے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین سے کہا تھا کہ تم لوگ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائیدمیں ابوطالب نے کہا تھا کہ میرے بھتیجے! میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے اِن قریشیوں سے کسی نامناسب بات کا مطالبہ نہیں کیاہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے کہا: چچا! آپ اس کلمہ کا اقرار کرلیجیے ، تاکہ قیامت کے دن میں آپ کے لیے شفاعت کرسکوں ، ابو طالب نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے اسلام کے لیے اتنی شدید خواہش دیکھی تو کہا: اے بھتیجے! اللہ کی قسم! اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں اور میرے بعد تمہارے آباء کی اولاد کو عار دلائیں گے ، اور اہلِ قریش کہیں گے کہ میں نے موت کے ڈر سے تمہارا کلمہ پڑھ لیا تھا، تو میں اسے کہہ گزرتا۔ [2] امام بخاری ومسلم نے مسیّب رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت آیا تو اُن کے پاس
Flag Counter