أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ))
[المائدہ:33]
’’ جو لوگ اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلانے میں لگے رہتے ہیں، ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا انہیں سولی پر چڑھا دیاجائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں، یا انہیں جلا وطن کردیا جائے۔ یہ رسوائی ان کے لیے دنیا میں ہے، اور آخرت میں انہیں عذابِ عظیم دیا جائے گا۔ ‘‘
اس آیت کے نزول کے بعد پھر کسی کی آنکھ میں گرم سلاخ نہیں پھیر ی گئی۔ [1]
سریّہ عمرو بن اُمیّہ ضمری رضی اللہ عنہ :
شوال سن 6 ہجری میں ابو سفیان بن حرب ایک دن اپنی قوم کی مجلس میں بیٹھ کر یہ کہتا سنا گیا کہ کیا کوئی ایسا نہیں جو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کردے، وہ تو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، یہ سن کر ایک دیہاتی آگے بڑھا اور کہا: تمہیں ایک ایسا آدمی مل گیا ہے جو بڑے دل گردے والا اور زبردست طاقت والا اور سب سے تیز دوڑنے والا ہے۔ اگر تم مجھے تقویت پہنچاؤگے تو میں اس کے پاس جاکر اسے قتل کرسکتا ہوں، اور میرے پاس چیل کے پرکے مانند باریک خنجر ہے جسے میں کنگن بنا کر پہن لوںگا، اور میں تیز دوڑ کر لوگوں سے آگے بڑھ جاؤں گا، اس لیے کہ میں راستے کا زبردست ماہر ہوں۔
ابو سفیان نے کہا: تم ہی ہمارے مطلوب شخص ہو، پھر اسے ایک اونٹنی اور زادِ راہ دیا اور کہا: اپنی بات کو سب سے پوشیدہ رکھو، وہ شخص رات کو نکلا، اور اپنی سواری پر سفر کرتا ہوا چھٹے دن صبح کے وقت مدینہ پہنچا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا، اس وقت آپ بنی عبدالأشہل کی مسجد میں تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو دیکھا تو فوراً کہا کہ یہ آدمی دھوکا دے کر مجھے قتل کرنا چاہتا ہے، اور اللہ اس سے میری حفاظت کریں گے، اس آدمی نے آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھکنا چاہا تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اس کا کپڑا پکڑ کر پیچھے کھینچا اور اس کا خنجر اچانک ظاہر ہوگیا، اور وہ آدمی حیران وششدر رہ گیا اور کہنے لگا: میرا خون، میرا خون۔ اُسید رضی اللہ عنہ نے اسے دبوچ کر اس پر قابو پالیا، وہ آدمی اپنے کیے پر سخت نادم ہوا جب اسے یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کی طرف سے حفاظت کی جاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی آدمی دھوکا دے کر نہیں قتل کرسکتا، تو وہ شخص مسلمان ہوگیا۔
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیّہ ضمری اور مسلمہ بن اَسلم رضی اللہ عنھما کو ابوسفیان بن حرب کو قتل کرنے کے لیے بھیجا، اور کہا: اگر تم دونوں اس پر اچانک حملہ کرکے اسے قتل کرسکتے ہو تو قتل کردو۔
یہ دونوں مکہ میں داخل ہوئے، عمرو بن امیّہ رضی اللہ عنہ رات کے وقت خانۂ کعبہ کا طواف کرنے کے لیے گئے، وہاں انہیں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور انہیں پہچان لیا، اور قریش کو خبر کردی، وہ سب سن کر فکر مند ہوئے اور انہیں طلب کیا، اور کہنے لگے کہ عمرو کسی اچھی نیت سے نہیں آیا ہے، تمام اہلِ مکہ یہ بات سن کر جمع ہوگئے، اور عمرو اور سلمہ رضی اللہ عنھما بھاگ پڑے، عمر و کی ملاقات
|