Maktaba Wahhabi

467 - 704
سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم سب بنو قریظہ کے معاملے میں میرے فیصلے پر متفق ہو، انہوں نے کہا: ہاں، اس امید کے ساتھ کہ آپ ہم پر احسان کیجیے گا، جیسا کہ خزرج کے لوگوں نے اپنے حلیف بنوقینقاع پر احسان کیا تھا،سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:کیا تم اللہ سے عہد وپیمان کرتے ہو کہ ان کے بارے میں میں جو فیصلہ کروں گا اسے تم لوگ مان لوگے، انہوں نے کہا: ہاں، پھر سعد رضی اللہ عنہ نے اس جانب اشارہ کرکے جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے کہا: اور کیا جو لوگ اس طرف ہیں انہیں بھی میرا فیصلہ منظور ہے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کہا: ہاں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان تمام کو قتل کردیا جائے، جن کے زیر ناف بال اُگ چکے ہیں، اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا جائے، اور مال واسباب مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیے جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے سعد! تمہارا فیصلہ وہی ہے جو اللہ عزوجلّ کا فیصلہ سات آسمان کے اوپر ہوا ہے۔ [1] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ تمام مقاتلینِ بنوقریظہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر میں لے جائے گئے، اور عورتیں اور بچے حارث کی بیٹی کے گھر میں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان قیدیوں کے ساتھ کھجوریں بکھیردی گئیں جنہیں وہ رات بھر گدھوں کی طرح کھاتے رہے، اور تورات پڑھتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اُن کے ہتھیار، مال واسباب اور کپڑے وغیرہ حارث کی بیٹی کے گھر میں جمع کردیے گئے، اور اونٹ اور بکریاں درختوں کے درمیان چرنے کے لیے چھوڑ دی گئیں۔ بالغ یہودیوں کا قتل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے بازارِ مدینہ میں گئے، اور آپؐ کے حکم سے وہاں ابو جہم عدوی کے گھر اور تیل کی دکانوں کے درمیان گہری خندق کھودی گئی، پھر قیدیوں کو لاکر ان کی گردنیں مار دی گئیں، انہیں وہاں یکے بعد دیگرے لایا جاتا تھا، انہی میں اللہ کے دشمن حُیَيْ بن اخطب اور کعب بن اسد بھی تھے، یہودیوں نے کعب بن اسد سے پوچھا جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا جارہا تھا کہ تمہارا کیا خیال ہے، محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے ساتھ کیا معاملہ کرے گا؟ کعب نے کہا: کیا ہر جگہ تمہاری عقل ماری جاتی ہے، تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ بلانے والا یکے بعد دیگرے بلارہا ہے، اور تم میں سے جو جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔ اللہ کی قسم! تمہارا انجام تلوار ہے۔ چنانچہ یہ تمام قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قتل کر دئیے گئے، اور انہیں قتل کرنے والے علی اور زبیر رضی اللہ عنھما تھے۔ پھر حُیَيْ بن اخطب کو لایا گیا، جس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، اور اس نے ایک سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا، اس نے اسے قتل کیے جانے کے لیے پہن لیا تھا، جب وہ سامنے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اے اللہ کے دشمن! کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے قبضے میں نہیں پہنچا دیا؟ اس نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! میں نے تم سے عداوت کرکے کبھی اپنے آپ کو ملامت نہیں کی، اورمیں نے عزت تلاش کی، لیکن اللہ نے اس کے سوا ہر بات کا انکار کردیا کہ
Flag Counter