جس کا اللہ نے تمہیں مالک بنا دیا ہے۔ یہ شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور خوب کام لیتے ہو۔
اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، اور اس کا بعض حصہ اُن کی شرط کے مطابق ہے۔ اسے امام ابو داؤد رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے۔ [1]
24۔ دو درختوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جُھک جانا:
صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ سے مروی حدیث ہے کہ ہم لوگ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ ایک کشادہ وادی میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے ایک طرف بڑھے تو میں پانی کا برتن لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ کے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی۔ وادی کے کنارے آپؐ نے دو درخت دیکھے، اُن میں سے ایک کے پاس گئے اور اس کی دو ڈالیوں کو پکڑ کر فرمایا: اللہ کے حکم سے تم میرے لیے جُھک جاؤ، چنانچہ وہ لگام ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپؐ کے لیے جھک گیا۔ پھر دوسرے درخت کے پاس گئے، اور اس کی ایک ڈالی پکڑ کر کہا: تم بھی اللہ کے حکم سے میرے لیے جُھک جاؤ، چنانچہ وہ بھی جُھک گیا، اور جب دونوں قریب ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جمع کر دیا اور فرمایا: اللہ کے حکم سے تم دونوں ایک ساتھ مل جاؤ، تو وہ دونوں مل گئے۔ یہ دیکھ کر میںپیچھے مُڑ کر اس ڈر سے دوڑنے لگا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس نہ ہو جائے کہ میں اُن کے قریب ہوں، تو اور دور جانے لگیں۔ میں ایک جگہ بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا تو دیکھتا کیا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرہے ہیں، اور وہ دونوں درخت الگ ہوگئے ہیں، اور اپنے تنے پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ [2]
25۔ دعا کے بعد فوراً نزولِ باراں:
صحیحین میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد نبوی میں داخل ہوا، اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اموال ہلاک ہوگئے اور تمام اسباب ووسائل منقطع ہوگئے، اللہ سے دعا کر دیجیے کہ بارش ہو۔ آپؐ نے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے لیے بارانِ رحمت بھیج دے، اے اللہ! ہمارے لیے بارش بھیج دے، اے اللہ! ہمارے لیے بارش بھیج دے۔ اُس وقت آسمان میں کہیں بادل نظر نہیں آرہا تھا، آسمان شیشہ کی طرح صاف تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی ہاتھ نیچے کیے، پہاڑوں کی مانند بادل امڈنے لگا، اور ابھی آپؐ منبر سے اُترے بھی نہیں تھے کہ بارش کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا۔
دوسرے جمعہ کو ایک دوسرا آدمی (یا وہی آدمی)آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اموال ہلاک ہوگئے، اور اسباب ووسائل منقطع ہوگئے۔ دعا کر دیجیے کہ بارش رُک جائے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھاکر دعا کی اور فرمایا: اے اللہ! ہمارے اِردگرد بارش ہو، ہمارے لیے اسے وبال نہ بنا۔ اے اللہ! ٹیلوں، پھیلے ہوئے پہاڑوں، وادیوں اور درختوں کی جڑوں میں بارش ہو۔ دعا کے بعد فوراً بادل چھٹ گیا اور آسمان صاف ہوگیا، اور وادی ایک ماہ تک بہتی رہی۔ اور جس سمت سے بھی
|