والوں کی طرف بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اُن پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ لوگ دس اونٹوں پر باری باری سوار ہوتے ہوئے چلے۔ پہلے انہوں نے ایک آدمی کو پکڑا جس نے کوئی معلومات دینے سے انکار کر دیا، بلکہ چیخ چیخ کر اہلِ قریہ کو آگاہ کرنے لگا، تو مجاہدین نے اسے قتل کر دیا۔ پھر وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ اہل ِقریہ سو گئے، تو اُن پر حملہ کر دیا، اور بڑی شدید جنگ ہوئی، اور دونوں فریقوں کے کافی لوگ زخمی ہوئے۔
قُطبہ رضی اللہ عنہ نے اکثر کو قتل کیا، اور ان کے اونٹ، بکریوں اور عورتوں کو ہانک کر مدینہ منورہ لے آئے۔ ہر مجاہد کے حصہ میں چار اونٹ آئے۔ اس سریّہ کی تفصیل میں آتا ہے کہ اس علاقہ کے مشرکین نے جمع ہو کر مسلمانوں کا پیچھا کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے اور مسلمانوں کے درمیان ایک سیلِ عظیم کی رُکاوٹ کھڑی کر دی، اور مسلمان انہیں دیکھتے رہے، اور بحفاظت مدینہ منورہ پہنچ گئے، اور کفّار اس سیلاب کو عبور نہ کرسکے، یہاں تک کہ مسلمان اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ [1]
سریّہ ضحاک کلبی رضی اللہ عنہ :
ماہِ ربیع الأول سن 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ ضحّاک بن سفیان بن عوف طائی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بنی کلاب کی طرف بھیجا۔ مسلمانوں کی فوج میں اُصید بن سلمہ بھی تھے جو بنی کلاب کے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سلمہ کا پیچھا کیا اور اسے اسلام کی دعوت دی، اور اس کے لیے امان کا اعلان کیا، لیکن سلمہ نے اپنے بیٹے اُصید اور اس کے دین کو گالی دی، اُصید نے اس کے گھوڑے کے دونوں کوچ کاٹ دیے، جب گھوڑا گِر پڑا تو سلمہ پانی میں اپنے نیزہ پر ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا، اور اسے ایک دوسرے مسلمان فوجی نے قتل کر دیا، اسے اُس کے بیٹے نے قتل نہیں کیا۔ [2]
سریّہ علقمہ مدلجی رضی اللہ عنہ :
ماہِ ربیع الثانی سن 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ جدہ والوں نے دیکھا ہے کہ حبشہ کے لوگ ساحل کے قریب جمع ہوکر اہلِ مکہ کے خلاف کوئی بحری قزاقی کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی سرکوبی کے لیے علقمہ بن مُجزّز رضی اللہ عنہ کو تین سو سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ یہ لوگ پہلے سمندر میں ایک جزیرہ پر پہنچے، پھر وہاں سے ان قزّاقوں کی طرف روانہ ہوئے، لیکن جب انہیں مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی تو بھاگ پڑے۔ [3]
سریّہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ :
ماہِ ربیع الثانی ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک سو پچاس انصاریوں کی معیت میں سو اونٹوں اور پچاس گھوڑوں کے ساتھ قبیلۂ طئ کے فُلس نامی صنم کو گرانے کے لیے بھیجا، اور اُن کو ایک سیاہ رنگ کا عَلَم اور دوسرا سفید رنگ کا دیا۔ اِن مجاہدین نے فجر طلوع ہوتے ہی آلِ حاتم کے محلہ پر حملہ کر دیا، اور اس بُت کوتوڑ دیا۔ بہت سارے قیدی، اونٹ اور بکریاں بھی ہاتھ آئیں۔ قیدیوں میں عدی بن حاتم کی بہن سفانہ بھی تھی۔ عدی پہلے ہی بھاگ کر شام کی طرف چلا گیا تھا۔
|