مجاہدین کو صنم کے خزانہ میں تین تلواریں اور تین زرہیں ملیں، اور قیدیوں اور غنائم کے ساتھ مدینہ واپس آگئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفانہ کے پاس سے گزرے، تو اُس نے کہا: والد مرگئے، اور بھائی غائب ہوگیا۔ آپ چاہیں تو مجھے آزاد کر دیجیے، اور میرے دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیجیے، میرے والد بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، اور سلام کو رواج دیتے تھے، کوئی صاحبِ حاجت بھی اُن کے پاس سے محروم نہیں لوٹا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے اندازِ گفتگو سے بہت ہی متأثر ہوئے، اور اسے آزاد کر دینے کا حکم دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریموں اور عزت داروں کی تکریم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا: اسے چھوڑ دیا جائے، اس لیے کہ اس کا باپ اعلیٰ اخلاقی قدروں کا مالک تھا۔
یہ سنتے ہی سفانہ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ تعالیٰ آپ کی بھلائی قبول کرے، کسی کمینہ کا آپ کو محتاج نہ بنائے، اور اگر کسی کریم النفس آدمی کی کوئی نعمت چِھن جائے تو آپ کے ذریعہ اللہ وہ نعمت اُس کو لوٹا دے۔
اِس کریمانہ معاملۂ نبوی کا اثر یہ ہوا کہ سفانہ فوراً اسلام لے آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جوڑا پہنایا، اخراجاتِ سفر دیے، اور اسے بلادِ شام کے سفر کی اجازت دی تاکہ وہ اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس جائے جو اسلامی فوجوں کو اپنے گھروں کی طرف آتا دیکھ کر بلادِ شام کی طرف بھاگ گیا تھا۔
جب اُس نے اپنے بھائی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملۂ کریمانہ کا ذکر کیا تو اُس نے پوچھا: تمہارا اُس آدمی سے میرے ملنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سفانہ نے کہا: میری رائے ہے کہ تم جلد از جلد جاکر اُن سے ملو۔
عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے دل میں سوچا: میں ضرور اس سے ملوں گا، اگر سچا ہوگا تو اُس کی بات ضرور سنوں گا، اور اگر جھوٹا ہوگا تو مجھے وہ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو لوگ مجھے گردن اٹھا اٹھاکر دیکھنے لگے اور کہنے لگے: یہ تو عدی بن حاتم ہے۔
عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عدی! اسلام قبول کر لو، سلامتی مل جائے گی۔ میں نے کہا: میں تو ایک دین کو مانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: اے عدی! اسلام قبول کرلو، سلامتی مل جائے گی۔ میں نے دوبارہ کہا: میں تو ایک دین کو مانتا ہوں۔ میں نے جب یہ بات تیسری بار کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں تمہارے دین کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے پوچھا: آپ میرے دین کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اور اس بات کو تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُہرایا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: کیا تم ’’رَکوسی‘‘[1]نہیں ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ فرمایا:کیا تم اپنی قوم کے سردار نہیں ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ فرمایا:کیا تم مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ نہیں لیتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے مذہب میں ایسا کرنا تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس بات میں اپنی عیب جوئی اور ذلت سمجھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اسلام لانے سے جو بات تمہیں روک رہی ہے، وہ میرے گرد موجود
|