Maktaba Wahhabi

394 - 704
جب جنگ کی آگ سرد پڑگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی چنگاری کو بجھادیا تو ابو سفیان نے پہاڑ کے اوپر سے جھانک کر آواز دی اور کہا: کیا تم لوگوں کے درمیان محمد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا جواب نہ دو، اس نے پھر کہا: کیا تمہارے درمیان ابن ابی قحافہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ا س کا جواب نہ دو، اس نے پھر کہا: کیا تمہارے درمیان ابن الخطاب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ا س کا جواب نہ دو، ابو سفیان نے ان تینوں کے علاوہ اور کسی کے بارے میں نہیں پوچھا: اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ اسلام کی عمارت کی بنیادیہی حضرات ہیں۔ تب ابوسفیان نے کافروں سے کہا: تم لوگوں نے انہیں قتل کردیا، اگر یہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا، اور کہا: اے اللہ کے دشمن، اے جھوٹے! جن کے تم نے نام لیے ہیں، وہ سب زندہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تمام لوگوں کو ابھی باقی رکھا ہے، جن کے نام سن کر تمہاری نیند حرام ہوجاتی ہے، ابوسفیان نے کہا: مسلمان مقتولین کا مُثلہ کیا گیاہے، میں نے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن مجھے اس بات سے کوئی تکلیف بھی نہیں ہوئی ہے، پھر اس نے کہا: ہبل معبود اونچا رہے، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے کہا: کیا تم لوگ اس کا جواب نہیں دوگے، صحابہ نے پوچھا: ہم کیا کہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو’’اللہ اعلیٰ واجل‘‘ یعنی اللہ سب سے اعلیٰ اور سب سے بلند وبالا ہے۔ صحابہ نے کہا: ’’اللہ اعلیٰ واجل‘‘ تو ابوسفیان نے کہا: ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارے پاس عزیٰ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اس کاجواب نہیں دوگے، صحابہ نے پوچھا: ہم کیا کہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو، اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے، صحابہ نے کہا: اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں، پھر ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، اور جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہماری اور تمہاری جنگ برابر نہیں ہوسکتی، ہمارے مقتولین کا ٹھکانا جنت ہوگا، اورتمہارے مقتولین جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ [1] ابتدا میں ابوسفیان کا جواب اس کی اہانت اور تذلیل کے طور پر نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ جب کفر کا نشہ اس کے دماغ پر چڑھ گیا اور کبر سے اس کا دل ودماغ بھر گیا اور اپنے معبودوں اور شرکِ اکبر کے ارتکاب پر فخر کرنے لگا تب صحابہ کرام نے اس کو حقیقتِ امر سے آگاہ کیا، اور پوری شجاعت کے ساتھ اس کی بات کا جواب دیا، تاکہ توحید کا کلمہ بلند ہو اور بت پرستی کی تذلیل ہو، اور اللہ تعالیٰ کے بلند وبالا مقام کا اعلان ہو۔ ابوسفیان کی طرف سے دوبارہ میدانِ بدر میں جنگ کی دھمکی: ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ابوسفیان نے واپس لوٹتے ہوئے پکار کر کہا کہ ہمارا اور تمہارا موعد آئندہ سال مقامِ بدر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے کہا: کہو، ہاں، ہمیں یہ وعدہ منظور ہے۔ [2] اس طرح مشرکین کی فوج ناکام ونامراد اپنے اونٹوں پر سوار ہوکر اور اپنے انتقام کی پیاس یک گونہ بجھاکر تیزی کے ساتھ
Flag Counter