نے اس جھوٹ پر تعجب کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا، پھر سب نے مل کر کہا: کیا تم بیت المقدس کے بارے میں ہمیں بتاسکتے ہو؟ اور حاضرین میں ایسے لوگ موجود تھے ، جنہوں نے فلسطین کا سفر کیا تھا، اور بیت المقدس کو دیکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کا وصف بیان کرنے لگا، تو بعض باتوں کے سلسلہ میں شبہ میں پڑگیا ، اچانک بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا گیا، اور میں اُسے دیکھنے لگا، اسے دار عقیل سے بھی زیادہ قریب لاکر رکھ دیا گیا، میں اُسے دیکھ رہا تھا، اور اس کا وصف بیان کررہا تھا، لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! وصف تو بالکل صحیح ہے۔ [1]
امام بخاری رحمہ اللہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سُنا: جب قریش والوں نے مجھے جھٹلادیا تومیں حِجر میں تھا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا ، میں اسے دیکھ کر اس کی نشانیاں بیان کرنے لگا، اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے۔ [2]
سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا موقف:
حاکم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت مسجد اقصیٰ لے جایا گیا، تو مکہ میں لوگ آپس میں خوب باتیں کرنے لگے، اور کئی لوگ ایمان سے پھرگئے، اور دوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اوراُن سے کہا: کیا تمہیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارا دوست یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اسے رات میں بیت المقدس لے جایا گیا ہے ؟ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا انہوں نے ایسا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں ، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے، لوگوں نے کہا: کیا تم اس کی اس بات کو مانتے ہو کہ وہ رات بیت المقدس گیا اور صبح سے پہلے واپس آگیا؟ انہوں نے کہا: ہاں ، میں تو ان کی اس سے زیادہ اہم اور تعجب خیز بات کو مانتا ہوں ، میں مانتا ہوں کہ صبح یا شام کسی وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے۔ اسی لیے اُن کا نام ابو بکر صدیق پڑگیا۔ [3]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک آسمانی سفر میں جن معجزات اور مفید نتائج کا ظہور ہوا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو نکال کر دھویا گیا اور اسے ایمان سے بھر دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک میں اُسے لوٹا دیا گیا۔
2- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شراب، شہد اور دودھ لایا گیا ، تو آپ نے دودھ کو پسند کیا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فطرت کو پسند کیا ، جس پر آپ قائم ہیں ، اور آپؐ کے بعد آپ کی امت اس پر قائم رہے گی۔
3- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں چار نہریں دیکھیں؛ دو نہریں اندر کی طرف سے اور دو باہر کی طرف سے، اور وہ دونوں دریائے نیل وفرات تھے۔
4- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داروغۂ جہنم مالک کو دیکھا جو ہنستا نہیں تھا، اور اس کے چہرے پر خوشی اور شادمانی کا کوئی نشان نہیں تھا، اور
|