((إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ)) [الأنفال: 9]
’’ جب تم لوگ اپنے ربّ سے فریاد کررہے تھے، تو اس نے تمہاری سن لی اور کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کروں گاجو یکے بعد دیگرے اُترتے رہیں گے۔ ‘‘
4۔ اور اس غزوہ کے دُور رس نتائج میں سے یہ تھا کہ اس کے ذریعہ اہلِ قریش پر اقتصادی پابندی لگ گئی، اور وہ راستہ بند ہوگیا جس پر چل کر وہ اپنی تجارت کے لیے ملکِ شام جایا کرتے تھے، وہ راستہ مکہ سے ساحلِ بحر احمر اور تبوک ہوتا ہوا دمشق تک جاتا تھا۔ [1]
غزوہ کا سبب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قریشیوں کا ایک بڑا تجارتی قافلہ شام سے لوٹ رہا ہے، جس کی قیادت ابو سفیان کررہا ہے، اور جس کے پاس قریش کی بھاری دولت موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجااور فرمایا: یہ قریشیوں کا قافلہ ہے، اس میں اُن کی بہت بڑی دولت ہے، تم لوگ اس کا پیچھا کرو، شاید اللہ تعالیٰ وہ دولت تمہیں دلا دیں۔
اس قافلہ میں ایک ہزار اونٹ انواع واقسام کے اموال سے لدے بھرے تھے، جن کی قیمت پچاس ہزار سونے کے دینارسے کم نہیں تھی، اور قافلہ کے ساتھ صرف چالیس کے قریب نگران تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم چل پڑے، بعض لوگ بغیر ہتھیار لیے بعض لوگ ہتھیاروں کے ساتھ، اس لیے کہ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودشمنوں سے جنگ کی نوبت آئے گی۔ ابو سفیان جب حجاز سے قریب ہواتو خبروں کی ٹوہ میں رہنے لگا، اور مارے ڈر کے ہر آنے جانے والے سے پوچھنے لگا، یہاں تک کہ بعض مسافروں کے ذریعہ اس کو یہ خبر مل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کے اور اس کے قافلے کی تلاش میں بھیجا ہے، اس لیے وہ بہت ہی محتاط ہوگیا، اور ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ بھیجا، تاکہ قریشیوں کو اس کی خبر دے، اور انہیں اپنا مال بچانے کے لیے جلدی آنے کو کہے۔ ضمضم تیزی کے ساتھ مکہ پہنچا، اور اپنے دونوں کان زخمی کرکے اپنے اونٹ پر کھڑا ہوگیا، اور اپنی قمیص آگے اور پیچھے سے پھاڑ دی، اور اپنی سواری کا رخ پھیر دیا اور کہنے لگا: اے اہلِ قریش! اللطیمہ، اللطیمہ(یعنی اپنے چہروں پر طمانچے لگاؤ)تمہارے اموال جو ابوسفیان کے ساتھ ہیں، انہیں لوٹنے کے لیے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل پڑا ہے، میرا خیال ہے کہ اب تم لوگ اس قافلے کو نہیں پاسکوگے، دوڑو، مدد کے لیے دوڑو!
اس طریقہ سے ضمضم پورے اہلِ مکہ کو گھبرادینے میں کامیاب ہوگیا، ان سب کے دل اپنے قافلے اور اپنی تجارت کے بارے میں خوف و ناامیدی سے بھرگئے، اورمسلمانوں کے خلاف ان کا کینہ بڑھ گیا، چنانچہ اہلِ قریش فوراً تیار ہوئے اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے نکل پڑے، اور ان کے لیڈروں میں سے کسی نے بھی سُستی نہیں کی۔
قریشی قافلہ کی مزید خبریں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے اپنے دو صحابی طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زیدرضی اللہ عنہماکو قریشی قافلے کی مزید
|