طرف رُخ کرکے اپنی سواری سے ٹیک لگا کر آرام کرنے لگے، لیکن ان کو نیند آگئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار نہ ہو سکے، نہ بلال رضی اللہ عنہ اور نہ کوئی دیگر صحابی، یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے بیدار ہوئے، تو گھبراکر اُٹھے، اور فرمایا: اے بلال یہ تم نے کیا کیا؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، مجھے بھی نیند آگئی، جس طرح آپ کو آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں سے چلو، چنانچہ سب اپنی اپنی سواریوں کے ساتھ کچھ آگے بڑھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی، اور نماز کے بعد فرمایا: جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، جب اسے یاد آئے تو پڑھ لے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
((وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي)) [طہ:14]
’’ مجھے یاد کرنے کے لیے نماز کو قائم کرو۔ ‘‘
تمام یہودی مراکز پر قبضہ، اور فتحِ خیبر کے نتائج:
تمام یہودی قلعے اپنی بے حد مضبوطی اور مقاتلین و اسلحہ اور دیگر جنگی اسباب کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں کی ایمانی طاقت کے سامنے دھڑام سے گر گئے، اور فتحِ خیبر کی باز گشت تمام قبائلِ عرب میں تیزی کے ساتھ پھیل گئی، سب کو اِس خبر نے حیرت میں ڈال دیا اور سبھی مرعوب ہوگئے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرنے سے باز آگئے، سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح وآشتی کی بھیک مانگنے لگے، اور دعوتِ اسلامیہ کے لیے نئی راہیں ہموار ہوگئیں۔
فتحِ خیبر کا مسلمانوں کے اقتصادی احوال کو درست کرنے میں بڑا کردار رہا۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: اب ہم پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں گے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کہا: ہم فتحِ خیبر کے بعد ہی سیر ہوکر کھاسکے۔
بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان جنگی کارروائیوں سے مقصود شر وفساد کی جڑ کو کاٹ دینا، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود کی سازشوں کا خاتمہ کرنا تھا، جیسا کہ غزوئہ خیبر کے اَسباب کے بیان میں گزر چکا ہے۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہر حال حصولِ اموالِ غنیمت پر یہود کے اسلام لانے کو ترجیح دی، اسی لیے کسی بھی جنگی کارروائی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کو اسلام کی دعوت دیتے تھے، لیکن اللہ نے ان کے دل کی طرف جانے والے اسلام کے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا، اور قتل کیے جانے، ذلت ورسوائی اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو قبول کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
((وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ)) [التکویر: 29]
’’ اور تم کچھ چاہ نہیں سکتے جب تک کہ اللہ نہ چاہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ‘‘
اِس طرح یہود کی جنگی سازشوں نے دم توڑ دیا اور زمانہ بعید سے حجاز میں عربوں کے خلاف اُن کی ظالمانہ اقتصادی کارروائیوں کا خاتمہ ہوگیا، مسلمان یہودی مکرو فریب سے نجات پاکر جزیرئہ عرب کو اسلام کے جھنڈے تلے یکجا کرنے میں لگ گئے، اور اللہ کی توفیق سے جلد ہی یہ کام ہوگیا، اور عَلَمِ اسلام جزیرئہ عرب میں ہر جگہ لہرانے لگا۔ سچ ہے کہ بہر حال اللہ کا حکم ہی
|