رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صبح کے وقت جنگ کے لیے پورے طور سے تیار کر دیا، ان کی صفیں درست کیں، مہاجرین وانصار اور قبائلِ عرب کو اُن کے جھنڈے دے دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے نکلتے وقت بنی سلیم کو آگے کیا تھا، اور اُن کا قائد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا، یہاں تک کہ آپؐ جعرانہ پہنچ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری تیاری کے ساتھ وادیٔ حنین میں آگے بڑھتے رہے، آپؐ کے ہاتھوں میں دو زِرہیں تھیں اور خود پہن رکھا تھا، اور دُلدل نامی خچر پر سوار تھے۔
بعض صحابہ نے اپنی تعدادِ کثیر کو دیکھ کر کہا: آج ہم لوگ قلتِ عدد کے سبب شکست نہیں کھائیں گے۔ شُدہ شُدہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی، اور اللہ عز وجل نے نازل فرمایا:
((لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ)) [التوبہ:25] …
’’غزوہ حنین کے دن مدد کی جب تمہاری کثرت نے تمہارے اندر عُجب پیدا کر دیا تھا۔ ‘‘ صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ شروع کی۔ ابتداء میں ہوازن کے پیش قدمی کرنے والے مقاتلین مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاکر پیچھے ہٹے، جس کے بعد اسلامی فوج کے افراد اموالِ غنیمت جمع کرنے لگے، انہیں گمان ہوا کہ ہوازن شکست کھا کر بھاگ پڑے ہیں، اب واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن دشمنوں نے وادی کی گھاٹیوں اور تنگنائیوں میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوجی دستے چھپا رکھے تھے، اُن دستوں نے مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کر دیا، اور پھر فجر سے عشاء تک بلکہ ساری رات جنگ ہوتی رہی، بالآخر مسلمان بکھر گئے، پہلے بنی سلیم کے گھوڑ سوار بھاگے، ان کے پیچھے اہلِ مکہ اور دیگر لوگ شکست کھاکر بھاگ پڑے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنی سواری کو کافروں کی طرف بڑھاتے رہے، اور عباس رضی اللہ عنہ اس خچر کی لگام پکڑ کر کھینچتے رہے تاکہ وہ تیزی نہ کرے۔ اور ابو سفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رِکاب تھامے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت کہہ رہے تھے: میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں ہے، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف مُڑے اور فرمایا: لوگو! میرے پاس آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں محمد بن عبداللہ ہوں۔ اور اونٹوں نے آپس میں ایک دوسرے کو دھکّا دیا، تو لوگ بھاگنے لگے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین وانصار اور اہلِ بیت کی ایک جماعت ڈٹی رہ گئی، جن کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ اُن میں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنھما اور اہلِ بیت میں سے علی بن ابی طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے بیٹے فضل بن عباس، ابو سفیان بن حارث، ربیعہ بن حارث، ایمن بن عبید (امّ ایمن کے بیٹے) اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم تھے۔
گھمسان کی لڑائی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس! حدیبیہ کے دن بیعۃ الرضوان والوں کو آواز دیجیے؟ عباس رضی اللہ عنہ کی آواز بلند تھی۔ انہوں نے اونچی آواز میں پُکارا: اے بیعۃ الرضوان والو! یہ آواز سنتے ہی وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسا مڑے جس طرح گائے اپنے بچھڑوں کی طرف مُڑتی ہے، اور کہنے لگے: ہم آگئے اے اللہ کے رسول! ہم آگئے۔ پھر وہ سب کافروں پر پِل پڑے، اور انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹنے لگے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار گردن اُٹھاکر جنگ کا جائزہ لیتے رہے، اور فرمایا: جب لڑائی گھمسان کی ہوتی ہے تو ایسا ہی منظر ہوتا ہے۔
|