Maktaba Wahhabi

354 - 704
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے اُمّ کلثوم بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی: سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی بیٹی سے شادی کرنے کا پیغام دیا، تو انہوں نے معذرت کردی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا میں تمہیں عثمان سے بہتر داماد اور عثمان کو تم سے بہتر خُسر بتاؤں ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو، اور میں عثمان کی شادی اپنی بیٹی (امّ کلثوم) سے کردیتا ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اپنی بیٹی امّ کلثوم رضی اللہ عنہ کی شادی عثمان رضی اللہ عنہ سے کردی۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے فاطمہ بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی : بیہقی نے ابن مندہ کی کتاب’’المعرفہ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ سے سن ایک ہجری میں نکاح کیا، اور اس کے ایک سال بعد رخصت کرکے لے آئے، یعنی واقعۂ بدر کے کچھ ہی دنوں کے بعد سن دو ہجری کے آخر میں۔ اور واقدی نے اسحاق بن عبداللہ کی ابوجعفر سے ایک روایت کی بنیاد پر صراحت کی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ذی الحجہ سن دو ہجری میں رخصت کرکے اپنے گھر لے آئے۔ اور بیہقی نے دلائل میں علی رضی اللہ عنہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا واقعہ خود علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا ہے،علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی طرف سے فاطمہ سے شادی کا پیغام ملا،تو میری ایک آزاد کردہ باندی نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ سے شادی کا پیغام دیا گیا ہے ؟ میں نے کہا: نہیں، اُس نے کہا: ہاں، پیغام آیاہے، تو آپ کے لیے کیا مانع ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کیجیے تاکہ وہ آپ سے فاطمہ کی شادی کردیں ؟ میں نے کہا: میرے پاس کہاں کوئی چیز ہے جس کے ذریعہ شادی کرسکوں ؟ اُس نے کہا: اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں گے تووہ آپ سے کردیں گے،اسی طرح وہ میری ہمت بڑھاتی رہی، یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں رعب وہیبت تھی، اس لیے جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا، تو میری زبان گُنگ ہوگئی، اور بات نہ کرسکا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی پوچھا: کس لیے آئے ہو، کیا تمہیں کوئی کام ہے ؟ میں خاموش رہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: کس لیے آئے ہو، کیا کام ہے ؟ میں پھر بھی خاموش رہا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: شاید تم فاطمہ کے لیے پیغام دینے آئے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے پاس کوئی چیزہے جس کے عوض تم اُسے حلال بناؤگے؟ میں نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارا وہ زِرہ کہاں گئی جو میں نے دی تھا؟ (علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ایک ثقیل چوڑی سی زِرہ تھی جس کی قیمت صرف چار درہم تھی) میں نے کہا: وہ تو میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہارا نکاح اس سے کردیا، وہ زِرہ فاطمہ کے پاس بھیج دو، تاکہ اس کے عوض تم اسے اپنے لیے حلال بناسکو، چنانچہ وہی زِرہ فاطمہ بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر بنی۔ [1] امام احمد رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو ایک مخملی چادر، ایک گھڑا اور چمڑے کے بنے ایک تکیہ( جس میں اِذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی) کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ [2]
Flag Counter