Maktaba Wahhabi

660 - 704
سند کے ذریعہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط تحریر کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو رضی اللہ عنہ کو یمن کے لیے روانگی کے وقت لکھ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اہلِ یمن کو دین سمجھائیں، سنت کی تعلیم دیں اور ان کی زکاۃ وصول کریں۔ [1] علی بن اَبو طالب رضی اللہ عنہ یمن میں: بیہقی نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا، تو میں بھی اُن کے ساتھ گیا۔ جب ان کے پاس زکاۃ کے اونٹ آئے تو ہم لوگوں نے اُن سے بعض اونٹ سواری کے لیے مانگے تاکہ ہمارے اونٹ آرام کریں اس لیے کہ وہ کمزور اور تھکے ہوئے تھے، تو انہوں نے انکار کر دیا، اور کہا: تمہارا اس میں دیگر مسلمانوں کی طرح ایک حصہ ہے۔ جب علی رضی اللہ عنہ اپنے کام سے فارغ ہوگئے، تو ایک دوسرے آدمی کو اپنی جگہ ہمارا امیر بناکر یمن سے واپس جانے لگے، اور تیزی کی، یہاں تک کہ حج میں شریک ہوگئے۔ حج کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جاؤ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے جس کو اپنی جگہ امیر بنایا تھا اس سے ہم نے وہی اونٹ مانگے تو اس نے منظور کر لیا۔ علی رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ زکاۃ کے اونٹوں کو لوگوں نے سواری کے طور پر استعمال کیا ہے، تو اس کو ملامت کی جو ان کے غائبانہ میں امیر تھا۔ اور بیہقی نے قصۂ حجۃ الوداع میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی ہے کہ جب علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا: تم نے کس حج کی نیت کی تھی؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا تھا، اے اللہ! میں اُس حج کی نیت کرتا ہوں جس کی نیت تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں ہدی کا جانور لے کر آیا ہوں، اس لیے تم حلال نہیں ہوگے۔ [2] ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات: اسی سن 10ہجری میں ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ مقوقس حاکمِ اسکندریہ ومصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ماریہ قبطیہ کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا، انہی کے بطن سے ذی الحجہ سن 8ہجری میں ابراہیم پیدا ہوئے۔ اور 11/ ربیع الأول بروز منگل سن 10ہجری میں وفات پاگئے، اور جنّت البقیع میں دفن ہوئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً ایک سال تین ماہ تھی۔[3] انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ابراہیم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جان کنی کی حالت میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اور فرما رہے تھے: آنکھ آنسو بہا رہی ہے، اور قلب مغموم ہے، لیکن ہم وہی بولیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہے، اللہ کی قسم! اے ابراہیم! ہم تیرے فراق پر بڑے ہی مغموم ہیں۔ [4] ****
Flag Counter