Maktaba Wahhabi

242 - 704
دعوتِ اسلام اور اہلِ مدینہ سوید بن صامت رضی اللہ عنہ کا اسلا م : بنی عمرو بن عوف کے سوید بن صامت حج یا عمرہ کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئے۔ یہ اپنی قوم میں کبر سنی، صبروشکیبائی ، شعرگوئی اور اپنے شرف ونسب کی وجہ سے ’’ کامل‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کی آمد کی خبر ہوئی تو ان سے جاکر ملے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، تو سوید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: شاید تمہارے پاس اُسی جیسی چیز ہے جو میرے پاس ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارے پاس کون سی چیز ہے؟ انہوں نے کہا : حکمتِ لقمان۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اُسے میرے سامنے پیش کرو، تو انہوں نے اُسے پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کلام اچھا ہے ، لیکن جو میرے پاس ہے ، وہ اس سے بہتر ہے ، میرے پاس قرآن پاک ہے، جسے اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے، اور وہ اللہ کی ہدایت اور اس کا نور ہے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی، تو انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا اور کہا: یہ بات اچھی ہے۔ پھر وہاں سے چلے گئے۔ جب مدینہ واپس لوٹے تو کچھ ہی دنوں کے بعد خزرج والوں نے انہیں قتل کردیا۔ ان کی قوم کے لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمارا یقین ہے ،وہ قتل ہونے سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اُن کا قتل جنگِ بُعاث سے پہلے ہوا تھا۔[1] ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ کا اسلا م : اور ابوحیسر انس بن رافع مکہ مکرمہ آیا تو اس کے ساتھ بنی عبدالأشہل کے کچھ جوان تھے، انہی میںسے ایاس بن معاذ بھی تھے۔ یہ لوگ اپنی قوم خزرج والوں کی طرف سے قریش کی تائید ونصرت حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خبر ہوئی تو ان کے پاس گئے اور فرمایا: کیا تمہیں اُس چیز سے زیادہ اچھی شے چاہیے جس کے لیے تم آئے ہو؟انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں ، اللہ کے بندوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور مجھ پر اللہ نے اپنی کتاب نازل کی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی تشریح کی اور قرآن کریم کی تلاوت کی ۔ ایاس بن معاذ نے کہا: (جوایک کم عمر نوجوان تھے) اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی قسم ! یہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم آئے ہو۔ ابو حیسرنے ایک مٹھی مٹی اُٹھائی اور ایاس بن معاذ کے چہرہ پر مار دی ، اور کہا: تم اس بات کو چھوڑو، اللہ کی قسم ! ہم کسی اور کام کے لیے آئے ہیں ، ایاس چُپ ہوگئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے گئے ، اور وہ لوگ مدینہ واپس چلے گئے، اور اس کے بعد ہی اوس وخزرج کے درمیان بُعاث کی جنگ چھڑگئی، اور ایاس بن معاذ کی وفات ہوگئی ۔ وفات سے پہلے اُن
Flag Counter