سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ :
سیّدناعلی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے تھے ، وہیں کھاتے پیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگے رہتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لڑکے کی طرح رہتے تھے، جب اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اس وقت ان کی عمر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے راجح قول کے مطابق دس سال تھی۔ وہ اپنے تمام اُمور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع تھے، اور جاہلیت کے تمام گندے کاموں اور بالخصوص بُت پرستی سے بالکل پاک وصاف تھے۔
صاحبِ اتحاف الوریٰ نے لکھا ہے کہ جب سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے دوسرے دن علی رضی اللہ عنہ نے آپ دونوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: اے محمد! یہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کا دین ہے جسے اُس نے اپنے بندوں کے لیے چُن لیا ہے، میں تمہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا ہوں ، جس کا کوئی شریک نہیں، اور لات وعزّیٰ کے انکار کی طرف بلاتا ہوں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی، میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے باپ ابوطالب سے پوچھ لینا چاہتا ہوں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہ ہوجائے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اے علی! اگر تم اسلام نہیں لاتے تو خاموشی اختیار کرو۔ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ نے وہ رات اسی حال میں گزاری ،پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں قبولِ اسلام کی بات ڈال دی؛ چنانچہ صبح سویرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! آپ نے مجھے کس بات کی دعوت دی تھی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں اوریہ کہ تم لات وعزیٰ کا انکار کرو، اور اللہ کے جھوٹے شریکوں سے اعلانِ براء ت کرو۔ علی رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ [1]اور بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی سوموار کے دن نازل ہوئی، اور علی رضی اللہ عنہ نے منگل کے دن نماز پڑھی۔ [2]
ابن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا: خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بعد سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ [3]
عفیف کِندی رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ وہ زمانۂ جاہلیت میں مکہ آئے، اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے، انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ خیمے سے نکل کر کعبہ کے رُخ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا ہے ، پھر ایک عورت نکلی، وہ بھی نماز پڑھنے لگی، اورایک لڑکا نکلا وہ بھی اس آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے لگا۔ انہوں نے عباس رضی اللہ عنہ سے ان تینوں کے بارے میں پوچھا: تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ ہیں ، جن کا خیال ہے کہ اللہ نے ان کو نبی بناکر بھیجاہے، اور یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہیں، اور یہ لڑکا ان کا چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب ہے۔ اور انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ آسمان اور زمین کے رب نے ان کو اس کام کا حکم دیاہے، جو ان تینوں کو تم نے کرتے دیکھاہے۔
|