ہاتھ اُٹھاکر میرے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ مارا، اور میں اس کے ساتھ گتھم گتھا ہوگیا، تو اس نے مجھے اٹھاکر زمین پر دے مارا، پھر میرے اوپر بیٹھ کر مارنے لگا، اس لیے کہ میں ایک کمزور آدمی تھا، یہ دیکھ کر امّ الفضل رضی اللہ عنہما اُٹھیں اور حجرہ کا ایک کھمبالے کر اس پر ایسی ضربیں لگائی کہ اس کا سر بُری طرح زخمی ہوگیا، اور کہا: کیا اس کا مالک نہیں ہے تو تم اسے کمزور سمجھ رہے ہو، وہ ذلیل ورسوا ہوکر بھاگ پڑا، اللہ کی قسم! اس واقعہ کے بعد ابو لہب نے صرف سات راتیں گزاری تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ نے طاعون جیسے ایک مرض میں مبتلا کردیا، جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔
ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس کے معدے میں ایک ایسا زخم ہوگیا جس سے عرب لوگ بدشگونی لیتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ دوسروں کو لگ جاتی ہے۔ چنانچہ ابولہب کی اس بیماری کا جب اس کے گھر والوں کو علم ہوا، تو اس کے لڑکے تک اس سے الگ ہوگئے، اور مرنے کے بعد تین دن تک اس کی لاش پڑی رہی، کوئی شخص اس کے قریب نہیں جاتا تھا، اور نہ اسے دفن کرنے کی کوشش کرتا تھا، لیکن جب ان کو ڈر ہوا کہ لوگ ان کی برائیاں بیان کریں گے تو سب نے مل کر ایک گڑھا کھودا اور ایک لمبی لکڑی کے ذریعہ اسے دھکادے کر اسے گڑھے میں گرادیا اور دور سے پتھر پھینک کر اسے بھردیا۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ واپسی:
صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم پر غلبہ حاصل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تین دن تک قیام کرتے، اور یہ بات گزرچکی ہے کہ معرکۂ بدر جمعہ کے دن 17/رمضان المبارک سن دو ہجری کو ہوا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تین دن تک ٹھہرے رہے، اور سوموار کے دن وہاں سے کوچ کیا، اور جب آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے تو بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور ان کفار مقتولین کو جواس میں ڈالے گئے تھے، مخاطب کرکے وہ بات کہی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل پڑے اور آپ کے ساتھ ستر (70) جنگی قیدی تھے، جن میں نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط بھی تھے، اور بہت سے اموالِ غنیمت بھی۔ جب آپؐ مقام صفراء کی تنگ نائی سے نکلے تو ریت کے ایک ٹیلے پر اُترے اوروہاں مسلمان مجاہدین کے درمیان مالِ غنیمت تقسیم کردیا۔
نضر بن حارث اورعقبہ بن ابو معیط کا قتل:
مدینہ واپس جاتے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابومعیط کو قتل کرنے کا حکم دیا، اس لیے کہ یہ دونوں اللہ اوراس کے رسول کے شدید ترین دشمنوں، کفر کے سرداروںاور جنگی مجرموں میں سے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفراء پہنچے تو نضر بن حارث کے قتل کا حکم دیا، جسے سیّدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے قتل کردیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور عرق الضبیہ نامی مقام پر پہنچے تو وہاں آپؐ نے عقبہ بن ابو معیط کے قتل کا حکم دیا، عقبہ نے کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم۔ پھر اُسے عاصم بن ثابت بن ابو الاقلح نے قتل کردیا، اور ایک روایت کے مطابق علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا۔ [2]
|