سریّہ ذاتِ سلاسل:
یہ سریّہ غزوہ مؤتہ کے بعد ماہِ جمادی الثانیہ سن 8 ہجری میں بھیجا گیا، اور اِس کا نام ذات السلاسل تبوک کے علاقہ میں جُذام نامی سر زمین پر واقع ایک کنویں کے نام پر رکھا گیا جسے وہاں السلسل کہا جاتا تھا۔ ایک دوسرا قول ہے کہ سلاسل واوی قریٰ سے ماوراء ایک زمینی ٹکڑا تھا جو مدینہ سے دس دن کی مسافت پر واقع تھا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قُضاعہ کے کچھ لوگ اپنے علاقہ میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ مسلمانوں پر حملہ کریں، اور وہ لوگ مدینہ کے قریب آجانا چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھمایا اور ساداتِ مہاجرین وانصار پر مشتمل تین سو مجاہدین کے ساتھ ان کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ جاتے ہوئے جن قبائلِ عرب کو اپنے ساتھ کر سکیں کر لیں۔ عاص بن وائل کی ماں قضاعہ کے قبیلہ بَلّی کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین سے طلب کیا کہ وہ شام کی سرحدوں پر پہنچ کر بنی قضاعہ اور ان قبائل کے خلاف تادیبی کارروائی کریں جنہوں نے معرکۂ مؤتہ میں مسلمانوں کے خلاف رومیوں کا ساتھ دیا تھا۔ [1]
یہ لوگ رات میں چلتے تھے اور دن میں چھپ جاتے تھے، جب دشمن کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ اُن کی تعداد بڑی ہے، اس لیے عمرو رضی اللہ عنہ نے رافع بن مکیث الجہنی رضی اللہ عنہ کو مزید فوجی امداد طلب کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو دو سو صحابہ کرام کے ساتھ بھیجا ان میں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنھما بھی تھے اور انہیں ایک جھنڈا بھی دیا اور حکم دیا کہ وہ عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جائیں اور یہ کہ باہمی اتفاق سے کام لیں اور اختلاف نہ کریں۔ اِس طرح وہاں مسلمان مجاہدین کی تعداد پانچ سو ہوگئی۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی، یہاں تک کہ بلادِ قُضاعہ اور بلادِ عُذرہ اور بالقین کی آخری سرحد تک پہنچ گئے۔ لیکن دشمنان اسلام بھاگ گئے اور تتر بتر ہوگئے۔ چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مدینہ واپس آگئے، عوف بن مالک اشجعی نے خط بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی سے صحابہ کرام کے محفوظ اور کامیاب لوٹنے کی خبر دے دی تھی۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جب سریہ ذات السلاسل کے امیر کی حیثیت سے بھیجا تو ان کے ساتھیوں نے ان سے آگ جلانے کی اجازت مانگی انہوں نے ان کو روک دیا، سب نے اس بارے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات کی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے بات کی لیکن انہوں نے کہا: جو شخص آگ جلائے گا میں اس کو اسی میں ڈال دوں گا۔ اور جب دشمن سے مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی تو انہوں نے دشمنوں کو شکست دے دی، اور جب مجاہدین نے ان کا پیچھا کرنا چاہا تو عمرو رضی اللہ عنہ نے ان کو روک دیا۔ [2]
عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ بھی روایت کی ہے کہ غزوئہ ذات السلاسل کی ایک سخت سرد رات میں مجھے احتلام ہوگیا، اور خوف ہوا کہ اگر نہاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، اسی لیے میں نے اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز تیمم کرکے پڑھائی۔
|