نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے کنارے کھڑے ہوکر کہا: اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ، اے فلاں اور اے فلاں! کیا تمہارے رب نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، اسے سچ پایا؟ مجھ سے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا، اسے میں نے سچ پایا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ ایسے لوگوں سے مخاطب ہیں جو مرچکے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگ ان سے زیادہ میری بات نہیں سن رہے ہو۔ [1]
غزوۂ بدر کے قیدی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بارے میں ابو بکر وعمررضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا جن کی تعداد ستر تھی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فدیہ لینے کا مشورہ دیا، اور اس کا سبب یہ بتایا کہ اس سے مسلمانوں کو کافروں کے خلاف قوت حاصل ہوگی، اور ممکن ہے کہ اس احسان کے سبب وہ اسلام لے آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کردینے کا مشورہ دیا، اس لیے کہ یہ سب کفر کے سردار اور سرغنہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھکاؤ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف ہوا، تو عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید میں قرآن نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿67﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿68﴾ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)) [الأنفال: 67۔ 69]
’’ نبی کے لیے مناسب نہ تھا کہ ان کے پاس قیدی ہوتے قبل اس کے کہ وہ زمین میں کافروں کا خوب قتل کرلیتے، تم لوگ دنیاوی فائدہ چاہتے تھے، اور اللہ تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا تھا، اور اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے، اور اگر اللہ کی طرف سے ایک بات پہلے سے نوشتہ نہ ہوتی تو تم نے جو مال قیدیوں سے لیا ہے اس کے سبب سے ایک بڑا عذاب تمہیں آلیتا، پس غنائم میں سے حلال اور طیّب کو کھاؤ۔ ‘‘
اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس مال کو حلال کردیا جو انہوں نے قیدیوں سے بطور فدیہ لیا تھا، اور تمام قیدیوں کا فدیہ یکساں نہیں تھا، بلکہ مالدار سے چار ہزار درہم لیا گیا، اور ان میں جو بالکل محتاج اور فقیر تھے، بغیر فدیہ لیے انہیں آزاد کردیا گیا، اور جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان سے یہ طلب کیا گیا کہ وہ دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ان سے مال لینا نہیں تھا، بلکہ انہیں معنوی طور پر کمزور کرنا تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے اِن بدبودار لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا۔
انصار نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو فدیہ دینے سے مستثنیٰ کرنا چاہا، اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، اور ان کی دادی بنی نجار کی تھیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا: ان کا ایک درہم بھی معاف نہ کرو، اس معاملے میں کسی طرف داری کے لیے کوئی گنجائش نہیں، چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہی کیوں نہ ہوں۔
|