لیے ہمارے ان تمام لوگوں کو ہمارے پاس پہنچادو جنہیں پہلی اور دوسری بار قید کرلیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا جب تک تم لوگ میرے ساتھیوں کونہ چھوڑدوگے، سہیل بن عمرو نے کہا: تم نے ہمارے ساتھ انصاف کیا ہے۔
سہیل بن عمرو اور ا س کے قریشی ساتھیوں نے شتیم بن عبدمناف تیمی کو اپنا نمائندہ بناکر مکہ بھیجا جس کی بات سُن کر قریش نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور دس مہاجرین کو چھوڑدیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشی قیدیوں کو چھوڑدیا۔
صلح کی شرطیں:
سہیل نے صلح کی وہ شرطیں پیش کیں جو وہ قریش کی جانب سے لے کر آیا تھا۔وہ شرطیں مسند احمد میں مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم رضی اللہ عنھما کی احادیث میں اسی طرح ابن اسحاق کی روایت سے سیرت ابن ہشام میں بھی مذکور ہیں، اوردیگرمتعدد صحیح احادیث میں بھی متفرق طور پر موجود ہیں۔ وہ شرطیں مندرجہ ذیل تھیں:
1: دس سال کے لیے جنگ بندی، تاکہ اس مدت میں لوگ امن کی زندگی گزارسکیں، اور کوئی کسی پر حملہ نہ کرے۔
2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کافروں میں سے جو کوئی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کردیں گے، اور قریش کے پاس مسلمانوں میں سے جو کوئی چلا جائے گا اسے قریش واپس نہیں کریں گے۔ اور جانبین کے دل اور سینے کینہ اور دھوکہ دہی سے پاک رہیں گے، اورصلح نامہ کی پابندی کریں گے، اور طرفین کے درمیان نہ کوئی خفیہ سازش ہوگی، نہ ہی بُغض وکینہ۔
3: جو کوئی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ عہد نامہ میں شامل ہونا چاہے گا، شامل ہوگا، اور جو کوئی قریش کے ساتھ شامل ہونا چاہے گا، شامل ہوگا۔
4: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس سال واپس چلے جائیں گے، مکہ میں داخل نہیں ہوں گے۔ آئندہ سال قریش کے لوگ مکہ سے نکل جائیں گے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے، وہاں تین دن قیام کریں گے، اوراُن کے ساتھ سواروں کا ہتھیار ہوگا، اور اپنی تلواروں کو میانوں میں رکھے بغیر مکہ میں داخل نہیں ہوں گے۔
سہیل نے یہ شرطیں پیش کیں، اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف سے انہیں سُن رہے تھے۔ بعض صحابہ انہیں سن کرکبیدہ خاطر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشیوں کے لیے نرمی کا اظہار کررہے تھے، اور ان شرطوں کی منظوری دیئے جارہے تھے، اور صحابہ سراپا دہشت وحیرت بنے ہوئے تھے، اور اگر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل اعتماد اور بھروسہ نہ ہوتا تو ان شرطوں کا انکار کردیتے، اور مکہ میں داخل ہونے کے لیے قریش سے جنگ کرتے۔
شرطوں سے متعلق بعض صحابہ کی رائے:
صلح کی شرطوں کے بارے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے سخت تھی، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور قریش باطل پر نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے کہا: کیا ہمارے مقتولین جنت میں، اوران کے مقتولین جہنم میں نہیں جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، انہوں نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کم تر پر کیوں راضی ہوجائیں، اور واپس چلے جائیں؟ حالانکہ اللہ نے ابھی ہمارے اور اُن کے درمیان فیصلہ نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے
|