Maktaba Wahhabi

410 - 704
غزوۂ احد کے بعد فوجی دستوں کی روانگی: گزشتہ صفحات میں لکھا گیا ہے کہ غزوۂ احد میں اسلامی فوج پر جو مصیبت آئی اس کے سبب مسلمانوں کے دشمنوں کے دلوں سے ان کی ہیبت جاتی رہی، اسی لیے بہت سے وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں سے پہلے صلح کی تھی، اب اس سے مُکر گئے اورمدینۃ الرسول کو ہر چہار جانب سے خطروں نے گھیرلیا، اور یہود ومنافقین نے کھل کر عداوت کرنی شروع کردی، اور مدینہ کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتی جری ہوگئے اور مدینہ پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کا مال واسباب لوٹ لینے کی سوچنے لگے۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایسی کارروائیاں کریں جن کے سبب پھر دوبارہ دشمنوں کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت بیٹھ جائے، اسی سلسلے کی ایک کامیاب جنگی کڑی تھی ابوسفیان کی فوج کا پیچھا کرنا اورمعبد خزاعی کے ذریعہ مشرکوں کی فوج کے دلوں میں رعب بٹھانا؛ چنانچہ اس واقعہ کے بعد یہود اور منافقین دوبارہ مسلمانوں کا ہزار حساب اپنے دلوں میں رکھنے لگے، اس لیے کہ انہیں یقین ہوگیا کہ اسلامی فوج ہر اس سانپ کا سرکچلنے کی طاقت رکھتی ہے جو مسلمانوں کو ڈسنا چاہے گا، چاہے وہ یہودی ہو یا منافق یا دیہاتی سر پھرا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر دشمن جماعتوں کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی کارروائیاں کیں، جن کا مسلمانوں کی نفسیات پر بہت ہی اچھا اثرپڑا، ان کا اپنے آپ پر اعتماد بحال ہوگیا، نیز دشمنوں کے دل ودماغ میں بھی ان کا خوف ورعب بیٹھ گیا اور ان پر شدید دہشت طاری ہوگئی۔ذیل میں میں اس ضمن کے فوجی دستوں کا مختصر ذکر کرتا ہوں: سریۂ ابی سلمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمراء الأسد سے واپس آنے کے بعد ماہِ شوال کے باقی ایام اور ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے مہینوں میں مدینہ ہی میں قیام کیا، ماہِ محرم کی ابتدا میں ایک آدمی مدینہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ بنی اسدکے طلیحہ اور سلمہ نامی دو آدمی جو خویلد کے بیٹے ہیں، اپنی قوم اور اپنے پیروکاروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ پراکسا رہے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ کو بلایا، اُن کے ہاتھ میں علَمِ جہاد دیا، اوران کے ساتھ ڈیڑھ سو مہاجرین وانصار کو بھیجا، ان میں ابو عبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، اسید بن حضیر اور ابو نائلہ جیسے کئی مشہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا: تم اس فوجی دستہ کو لے کر نکلو، میں نے تمہیں اس کا ذمہ دار بنادیا ہے، اور چلتے رہو یہاں تک کہ بنی اسدکے علاقے میں پہنچ جاؤ، اور ان پر اُن سب کے اکٹھا ہونے سے پہلے حملہ کردو۔ ابو سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر لبیک کہا اور تیزی کے ساتھ چل پڑے، اور ایک غیر مانوس راستہ اختیار کیا، تاکہ دشمن کوان کی آمدکی خبر نہ ہوجائے چنانچہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے اچانک انہیں ان کے گھروں میں جالیا اوران پر حملہ کردیا اور انہیں شکست فاش دی، وہ سب اپنے اونٹ اور بکریاں چھوڑ کر پہاڑوں پر بھاگ گئے، ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان جانوروں کو اپنے قبضہ میں کرلیا، اور ان لوگوں میں سے ایک تعداد کو قیدی بنا لیا، پھر مدینہ واپس چل پڑے ان کے ساتھ غنیمت کے اموال واسباب بھی تھے۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کوغزوۂ احد میں کاری ضرب لگی تھی، جس کا ایک مدت تک علاج کرنے کے بعد مائل بشفا ہوگئے تھے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس فوجی دستے کا امیر بناکر بھیج دیا تھا، لیکن جب واپس آئے تو ان کا زخم دوبارہ کھل گیا اور
Flag Counter