Maktaba Wahhabi

333 - 704
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو فرمایا: جب ان دونوں نے تم سے سچ کہا تو ان کی پٹائی کی، اور جب جھوٹ کہا تو ان کو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم! ان دونوں نے سچ کہا کہ وہ قریش کے آدمی ہیں، اور انہوں نے مجھے قریش کے بارے میں بتایا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے کہا: مجھے تم قریش کے بارے میں بتاؤ، انہوں نے کہا: وہ لوگ اس ٹیلے کے پیچھے ہیں جسے آپ دیکھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ لوگ کتنے ہیں، انہوں نے کہا: بڑی تعدادمیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کی تعداد کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ لوگ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں، انہوں نے کہا: کبھی نواور کبھی دس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی تعداد نوسو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ان میں سرداران قریش میں سے کون ہیں ؟ انہوں نے کہا: عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود، ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، نبیہ اور منبہ (حجاج کے دونوں بیٹے)، سہیل بن عمرو اور عمرو بن عبد وَدّ۔ تب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: یہ لو، مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے سامنے لاکر ڈال دیا ہے۔ [1] مسلمان اور مشرکینِ قریش آمنے سامنے: مشرکینِ قریش آگے بڑھ کر وادئ بدر کے مدینہ سے دور کے کنارہ پر پہنچ گئے، اور بدر کے سارے کنویں مدینہ سے قریبی جہت میں تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادئ بدر کے قریب اُترے تھے، آپ کے پاس حُباب بن المنذر بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ آئے، اور کہا: یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں قیام فرمایا ہے، یہ جگہ اللہ نے آپ کے لیے اختیار کی ہے جس سے آپ آگے پیچھے نہیں ہوسکتے، یا یہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی رائے اور جنگی تدبیر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ یہ میری ذاتی رائے اور جنگی تدبیر ہے۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔آپ ہمارے ساتھ اُٹھیے اور کفارِ قریش سے جو کنواں سب سے زیادہ قریب ہے، وہاں تشریف لے چلیے، اور قیام کیجیے، اور اس کے پیچھے جتنے کنویں ہیں ان سب کو ہم بھردیں، پھر اس پر ایک حوض بنادیں اور اسے پانی سے بھردیں، پھر ہم کفارِ قریش سے قتال کریں تو ہم پانی پییں گے اور انہیں پانی نہیں ملے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا مشورہ دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کفارِ قریش سے جو کنواں سب سے زیادہ قریب تھا وہاں آکر ٹھہر گئے، پھر دیگر کنوؤں کوبھر دینے کا حکم دیا گیا، اور جس کنواں کے پاس ٹھہرے تھے اس کے قریب ایک حوض بناکر اسے پانی سے بھر دیا گیا، اور اس میں ڈول ڈال دیا گیا۔ اللہ عزوجل نے بارش بھیجی اور وادی کی زمین ایسی تھی جس میں پاؤں دھنستے تھے، بارش کے بعد وہ زمین ذرا سخت ہوگئی جس پر چلنا آسان ہوگیا، اور کافروں کی طرف کی زمین پر چلنا مشکل ہوگیا۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا ہم آپ کے لیے ایک سایہ دار جگہ نہ بنادیں جس میں آپ قیام کریں، اور ہم آپ کے پاس آپ کی سواریوں کو تیار کرکے رکھیں، پھر دشمن کا مقابلہ کریں، اگر اللہ نے ہمیں عزت دی اور دشمنوں پر ہم کو غالب بنایا تو ہماری تمنا یہی ہے، اور اگر دوسری بات ہوئی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر ہماری قوم کے باقی ماندہ
Flag Counter