اسلام کی طرف اپنی نسبت کرنے والے بعض مؤلفین کا یہ کہنا باطلِ محض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول تک پہنچے((أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ (19) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ)) [النجم:19-20]… ’’اے کفارِ مکہ! کیا تم نے لات وعزّیٰ کے بارے میں غور کیا ہے، اور منات پر غور کیا ہے جو ایک تیسرا بُت ہے۔‘‘… تو شیطان نے اس وقت اپنی طرف سے مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ کردیاجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت میں شامل ہوگیا:((وَاِنَّہُن الغرانیق العُلی وانّ شفاعتہُنّ لترتجی))اور یہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوگئے جو شیطان کی طرف سے آزمائش وفتنہ تھا۔ یہ دونوں کلمات مکہ کے ہر مشرک کے دل میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے: محمدؐ اپنے پہلے دین اور اپنی قوم کے دین کی طرف لوٹ گیا ہے ۔اور برخود غلط مؤلفین کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو وہاں پر موجود ہر مسلم ومشرک نے سجدہ کیا۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی وجہ سے سجدہ کیا، اور مشرکین نے ان کلمات کو سن کر سجدہ کیا جو شیطان کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت میں داخل کردیا گیا تھا۔ مشرکین نے یہ سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معبودوں کی تعریف کی ہے ، اور اپنے آباء واجداد کے دین کی طرف لوٹ گئے ہیں، اور یہ خبر جب حبشہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کو ملی تو انہیں گمان ہوا کہ تمام اہلِ مکہ مسلمان ہوگئے ہیں ۔ان مؤلفین نے آخر میں لکھا ہے کہ شیطان نے آپؐ کی قراء ت میں جو کچھ شامل کردیا تھا، اللہ نے اسے منسوخ کردیا اور اپنی آیتوں کو محکم بناکر ہمیشہ کے لیے انہیں باطل سے محفوظ کردیا۔
یہ مذکورہ بالا خبر بے بنیاد ہے ، صحیح احادیث سے اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ، جیسا کہ ہمارے شیخ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’’ایسی خبر کو قبول کرنے کے لیے صحیح نقلی دلیل کا پایا جانا ضروری ہے ۔ اور یہ کوئی بعید بات نہیں کہ یہ جھوٹی خبر بعد میں گھڑی گئی ہے،بلکہ یہی زیادہ قرینِ قیاس ہے ۔ اس لیے کہ کسی بھی صحابی سے معتبر سند کے ذریعہ یہ جھوٹی خبر مروی نہیں ہے ، بلکہ اس کی تمام سندیں مُرسل ہیں ۔ یعنی سلسلۂ سند سے صحابی کا نام مفقود ہے،کسی کو معلوم نہیں کہ عہدِ نبوت ورسالت پانے والے کسی صحابی نے اسے بیان کیا ہے ، اور میں نے اس قصے کے بطلان کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’نصب المجانیق لنسف قصۃ الغرانیق‘‘ میں بیان کردیا ہے۔‘‘ [1]
قریش کا نجاشی کو مہاجرین کے خلاف اُبھارنا:
مسلمانوں کے دوبارہ ہجرتِ حبشہ کی باقی ماندہ تفصیلات کی طرف عود کرتے ہوئے عرض ہے کہ امّ المؤمنین امّ سلمہ رضی اللہ عنھا (جو اپنے سابق شوہر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں) کہتی ہیں کہ جب قریشیوں نے حبشہ میں مسلمانوں کو آرام وسکون کے ساتھ رہتے دیکھا تو سازش کی کہ دو باہمت آدمیوں کا انتخاب کرکے نجاشی کے پاس بھیجیں، تاکہ اسے مسلمانوں کے خلاف ورغلاکرانہیں وہاں سے نکلوا دیں۔ انہو ں نے مشورہ کیا کہ نجاشی کے لیے مکہ سے کچھ بہت ہی عمدہ قسم کے تحفے بھی بھیج دیں ، چنانچہ انہوں نے اس کے لیے چمڑے کے بنے ہوئے بہت سارے سامان اور ایک گھوڑا اور دیباج کا بنا ہوا ایک جبّہ بھیجا، اور اس کے مقربین میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ ہدیہ تیار کیا، اور ان سب کے ساتھ عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنھما کو اس کے پاس بھیجا، اور انہیں اچھی طرح سکھا دیا کہ دربار میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات کرنے سے
|