5: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بارش کے وقت گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ (سنن ابن ماجہ بسند صحیح)
6: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ کے ایک مسئلہ کی وضاحت فرماتے ہوئے اُس شخص کے کفر کو واضح کیا ہے جو کہتا ہے کہ فلاں اور فلاں ستارے کے سبب ہماری زمین پر بارش ہوئی ہے (البخاری، کتاب الأذان)۔ اورنیک فال نکالنے کو مستحب بتایاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سہیل بن عمرو کو آتے دیکھا تو صحابہ کرام سے فرمایا، تمہارا معاملہ آسان ہوگیا۔
7: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی سے وضو کرنا۔ اور یہ جواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے صالح لوگ اس میں داخل نہیں ہیں۔ (دیکھئے الاعتصام للشاطبی: ص 2/8)۔
8: مسلمان صبح کی نماز کے لیے بیدار نہ ہوسکے، دھوپ کی گرمی سے اُن کی آنکھ کُھلی، اور رات میں قافلہ والوں کی نگرانی اور صبح کی نماز کے لیے جگانا بلال رضی اللہ عنہ کے ذمہ لگایا گیا تھا، لیکن اُن پر نیند غالب آگئی۔اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے طلوعِ آفتاب کے بعد نماز پڑھی، اور ہر اس مسلمان کے لیے جو نماز سے سویا رہ جائے یا بھول جائے، سنت ہوگئی کہ نیند سے بیدا ر ہونے اور یا د آجانے کے بعد نماز پڑھ لے۔ (ابوداؤد ونسائی)
9: مسلمانوں کا امام اگر دشمن کے ساتھ صلح کرلینے میں مصلحت سمجھتا ہے، تو اس میں بعض قباحتوں کے باوجود اُس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔
10: جس مُحرِم کو مکہ جانے سے روک دیا جائے، وہ اپنے ہدی کا جانور اسی جگہ ذبح کردے گا جہاں اسے روک دیا جائے، چاہے وہ حدودِ حرم سے باہر ہو یا اندر۔
11: منہ کا بلغم اور استعمال شدہ پانی طاہر ہے۔
1 2: اصل یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احکام میں شریک ہیں، سوائے اُن احکام کے جو دلائل کے ذریعے آپؐ کے ساتھ خاص ہوں۔ اس کی دلیل امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کا یہ قول ہے کہ ’’آپ باہر نکلیے اور کسی سے بات نہ کیجیے، یہاں تک کہ آپ اپنے بال منڈا لیجیے اور اپنی قربانی کرلیجیے۔‘‘ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کومعلوم تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضرور کریں گے۔
13: اگر مسلمانوں کا امام کافروں کے ساتھ معاہدۂ صلح کرلے، اس کے بعد مسلمانوں کا ایک گروہ نکل کر اُن کافروں سے جنگ کرے، ان کے اموال پر بطور غنیمت قابض ہوجائے، اور امام کے پاس نہ جائے، تو اُس امام پر واجب نہیں کہ ان معاہدہ کرنے والے کافروں کا دفاع کرے اور اُس مسلمان جماعت کو اُن پر حملہ کرنے سے روکے۔[1]
فرضیتِ حج:
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی سن چھ ہجری میں زمانۂ حدیبیہ میں حج کی فرضیت نازل ہوئی،جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی
|