Maktaba Wahhabi

369 - 704
واقدی کا خیال ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے تھے، واللہ اعلم۔ یہ تھا کعب کی غداری اور اس کی بدعہدی کا انجام جو اسے ملا، اور پرانی مثل ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ [1] غزوۂ سویق: میدانِ بدر سے بھاگے ہوئے مشرکین غم سے چور جب مکہ پہنچے، تو ابو سفیان نے نذر مانی کہ وہ جب تک محمد سے جنگ نہیں کرے گا، اپنا سر نہیں دھوئے گا، چنانچہ وہ دوسرے قریشی گھوڑ سواروں کے ساتھ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے نکلا، یہاں تک کہ مدینہ آیا،اور ایک رات سلام بن مشکم یہودی کے پاس ٹھہرا، جس نے اسے شراب پلائی اور لوگوں کی خفیہ خبریں سنائی، یہ آدمی ان دنوں بنی نضیر کا سردار اور ان کا مالدار آدمی تھا۔ ابو سفیان رات کے آخری پہر میں وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، اور چند قریشی جوانوں کو بھیجا جو مدینہ کے اطراف میں واقع مقامِ عریض تک پہنچے، اور کھجور کے درختوں کو جلایا اور دو آدمیوں کو قتل کردیا، اور تیزی کے ساتھ مکہ واپس چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس کی تلاش میں نکلے، اور مدینہ میں ابو لبابہ بشیر بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنادیا، اور مقام قرقرۃالکدر تک پہنچ گئے، لیکن ابو سفیان نکل چکاتھا، اور کفار نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بہت سارا ستّو راستہ میں چھوڑ دیا جو مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اسی لیے اس کا نام غزوۂ سویق پڑگیا( عربی میں ستّو کو سویق کہتے ہیں) یہ واقعہ معرکۂ بدر کے بعد ماہِ ذی الحجہ سن دو ہجری کا ہے۔ [2] غزوۂ ذی امر: غزوۂ سویق کے ایک ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا اور نجد کی طرف فوج لے کر قبیلۂ غطفان سے جنگ کے لیے روانہ ہوگئے جو مقام ذی امر میں جمع تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی سب بھاگ پڑے اور جنگ نہیں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ماہِ صفر سن تین ہجری تک ٹھہرے رہے پھر مدینہ واپس آگئے۔ واقدی اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ ذی امر کے کنویں پر جمع ہونے والے قبیلۂ غطفان کے لوگ تھے جو بنی ثعلبہ بن محارب کا ایک قبیلہ تھا، اور مسلمان فوجیوں کی تعداد چار سو پچاس تھی۔ ابن اسحاق نے ان حضرات کی مخالفت کی ہے اور لکھا ہے کہ مسلمان ان سے جنگ کے لیے جمعرات کے دن بارہ ربیع الأول سن تین ہجری کو نکلے تھے۔ [3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آنے کے بعد ماہ ربیع الأول کے آخر تک وہیں قیام پذیر رہے، پھر قریش کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے، اور مدینہ میں اپنا خلیفہ ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مقرر کردیا، اس بار آپؐ مکہ اور شام کے درمیان تجارتی راستہ پر واقع بحران تک پہنچے، لیکن کوئی جنگ نہیں ہوئی، آپ وہاں ربیع الآخر اور جمادی الاولیٰ تک ٹھہرے رہے، پھر مدینہ واپس آگئے۔
Flag Counter