صنعاء کا کذّاب اَسود عنسی تھا جسے فیروز دیلمی نے قتل کر دیا، اور مسیلمہ کذّاب کو سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں اہلِ ارتداد کے خلاف جنگ یمامہ میں وحشی نے قتل کر دیا۔ اور یوں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کے خواب کو سچ کر دکھلایا، دونوں جھوٹوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے ارتداد کا اعلان کیا تو اللہ نے دونوں پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو مسلط کر دیا جنہوں نے دونوں کو قتل کر دیا، اور دونوں پر پھونک مارا تو غائب ہوگئے۔
7 ۔ وفدِ قبیلۂ طیٔ:
بیہقی نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے کہ قبیلۂ طی کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اُن میں ایک آدمی زید الخیل نام کا تھا۔ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور مخلص مسلمان بن گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عربوں میں سے آج تک کسی کی بھی خوبی میرے سامنے بیان کی گئی، اور پھر وہ شخص میرے سامنے آیا تو اُسے اُس سے کم پایا جتنی اُس کی تعریف کی گئی، سوائے زید الخیل کے، اِس کی اُتنی تعریف نہیں کی گئی جتنی تعریف کا وہ مستحق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس کا نام زید الخیر رکھ دیا، اور اسے بہت سارے تحائف اور زمین وجائداد سے نوازا، اور اِن عطیات کی ایک سند لکھ کر دی۔
سن 9 ہجری کے واقعات کے ضمن میں عدی بن حاتم کے فرار ہونے، اس کی بہن (سفانہ) کے پکڑے جانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کے لائے جانے کی تفصیل گزر چکی ہے، نیز اس ضمن میں یہ بات بھی آچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفانہ کو آزاد کر دیا، اسے جوڑا دیا، اور زادِ سفر دیا، وہاں سے وہ سفر کرکے اپنے بھائی کے پاس بلادِ شام گئی اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کا مشورہ دیا، چنانچہ عدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کرلیا۔ [1]
8 ۔ وفدِ کندہ:
بیہقی نے روایت کی ہے کہ اَشعث بن قیس رضی اللہ عنہ قبیلۂ کندہ کے اسّی (80) یا ساٹھ (60) افراد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، سب کے سب مسجد نبوی میں داخل ہوگئے، سب نے اپنے بالوں میں کنگھی کر رکھی تھی، سرمہ ڈالا ہوا تھا، اور ریشم کے بنے آستینوں والے جُبّے پہن رکھے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: کیا تم لوگ ابھی تک اسلام نہیں لائے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم مسلمان ہوچکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم نے یہ لوہے اپنی گردنوں میں کیوں لٹکا رکھے ہیں؟ انہوں نے ان کو نکال پھینکا۔ [2]
9 ۔ وفدِ قبیلۂ اَشعر:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایسے لوگ آئیں گے جو تم سے زیادہ نرم دل والے ہیں۔ اس کے بعد ہی یمن کے قبیلہ اَشعر کے لوگ آئے، اُن میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ یہ لوگ
|